Pages

Tuesday, 16 April 2013

نذرانہ


تم پریشاں نہ ہو بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا
اسی کوچے میں جہاں چاند اُگا کرتے ہیں
شبِ تاریک گزاروں گا چلا جاؤں گا

راستہ بھول گیا یا یہاں منزل ہے میری
کوئی لایا ہے یا خود آیا ہوں معلوم نہیں
کہتے ہیں حُسن کی نظریں بھی حسیں ہوتی ہیں
میں بھی کچھ لایا ہوں، کیا لایا ہوں معلوم نہیں

یوں تو جو کچھ تھا میرے پاس میں سب کچھ بیچ آیا
کہیں انعام ملا اور کہیں قیمت بھی نہیں
کچھ تمہارے لئے آنکھوں میں چھپا رکھا ہے
دیکھ لو اور نہ دیکھو تو شکایت بھی نہیں

ایک تو اتنی حسیں دوسری یہ آرائش
جو نظر پڑتی ہے چہرے پہ ٹھہر جاتی ہے
مسکرا دیتی ہو رسمآ بھی اگر محفل میں
اک دھنک ٹوٹ کے سینوں میں بکھر جاتی ہے

گرم بوسوں سے تراشا ہوا نازک پیکر
جس کی اک آنچ سے ہر روح پگھل جاتی ہے
میں نے سوچا ہے تو سب سوچتے ہوں گے شائید
پیاس اس طرح بھی کیا سانچے میں ڈھل جاتی ہے

کیا کمی ہے جو کرو گی میرا نذرانہ قبول
چاہنے والے بہت، چاہ کے افسانے بہت
ایک ہی رات سہی گرمیء ہنگامہءِ عشق
ایک ہی رات میں جل مرتے ہیں پروانے بہت

پھر بھی اک رات میں سو طرح کے موڑ آتے ہیں 
کاش تم کو کبھی تنہائی کا احساس نہ ہو
کاش ایسا نہ گھیرے راہِ دنیا تم کو
اور اس طرح کہ جس طرح کوئی پاس نہ ہو

آج کی رات جو میری طرح تنہا ہے
میں کسی طرح گزاروں گا چلا جاؤں گا
تم پریشاں نہ ہو بابِ کرم وا نہ کرو
اور کچھ دیر پکاروں گا چلا جاؤں گا


No comments:

Post a Comment