Pages

Friday, 10 May 2013

دل کو اِس سال کوئی سخت سزا دی جائے


ترکِ الفت کو نہ اب اور ہوا دی جائے
اُس کی خواہش ہے تو یہ بات بُھلا دی جائے


رات سر پر ہے، کٹھن راستہ، مسافر تم کو
لوٹ آنے کی، یا منزل کی دُعا دی جائے


خُود وہ آئے گا سرِ بام، جو آنا ہو گا
اُس کے دروازے پہ دستک، نہ صدا دی جائے


اتنے جھنجھٹ ہیں کہ مِلتی نہیں اب تو فُرصت
رسمِ دلجوئی، ہو جیسے بھی، اُٹھا دی جائے


ایک ہی طرح دھڑکتا ہے، خزاں ہو کہ بہار
دل کو اِس سال کوئی سخت سزا دی جائے


منتخب لوگ ہیں، خلعت سے بلند و بالا
مُستحق لوگوں کو دستار و قبا دی جائے


سحرِ خاموشی کسی طرح تو ٹُوٹے عظمی
اِک صدا نام پہ اپنے ہی لگا دی جائے

No comments:

Post a Comment