Pages

Friday, 10 May 2013

وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں



ہوا کے واسطے اِک کام چھوڑ آیا ہوں
دِیا جلا کے سرِشام چھوڑ آیا ہوں

امانتِ سحر و شام چھوڑ آیا ہوں
کہیں چراغ، کہیں جام چھوڑ آیا ہوں

کبھی نصیب ہو فُرصت تو اُس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو تیرے نام چھوڑ آیا ہوں

ہوائے دشت و بیاباں بھی مُجھ پہ برہم ہے
میں اپنے گھر کے دروبام چھوڑ آیا ہوں

کوئی چراغ سرِ راہگزر نہیں، نہ سہی
میں نقشِ پا تو بہرگام چھوڑ آیا ہوں

ابھی تو اور بہت اس پہ تبصرے ہونگے
میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں

یہ کم نہیں ہے وضاحت میری اسِیری کی
پروں کے رنگ، تہہِ دام چھوڑ آیا ہوں

وہاں سے ایک قدم بھی نہ بڑھ سکی آگے
جہاں پہ گردشِ ایّام چھوڑ آیا ہوں

مُجھے جو ڈھونڈنا چاہے وہ ڈُھونڈ لے اعجاز
کہ اب میں کوچۂ گُمنام چھوڑ آیا ہوں

No comments:

Post a Comment