Pages

Wednesday, 8 May 2013

ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں



ایک وعدہ ہے کسی کا جو وفا ہوتا نہیں 
ورنہ ان تاروں بھری راتوں میں کیا ہوتا نہیں 

جی میں آتا ہے الٹ دیں انکے چہرے کا نقاب 
حوصلہ کرتے ہیں لیکن حوصلہ ہوتا نہیں 

شمع جسکی آبرو پر جان دے دے جھوم کر 
وہ پتنگا جل تو جاتا ہے ، فنا ہوتا نہیں 

اب تو مدت سے رہ و رسم نظارہ بند ہے 
اب تو انکا طور پر بھی سامنا ہوتا نہیں 

ہر شناور کو نہیں ملتا طلاطم سے خراج
ہر سفینے کا محافظ ناخدا ہوتا نہیں 

ہر بھکاری پا نہیں سکتا مقامِ خواجگی 
ہر کس و ناکس کو تیرا غم عطا ہوتا نہیں 

ہائے یہ بیگانگی اپنی نہیں مجھکو خبر
ہائے یہ عالم کہ تُو دل سے جُدا ہوتا نہیں 

No comments:

Post a Comment