Pages

Friday, 17 May 2013

سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا



منتظر کب سے تحیر ہے تیری تقریر کا
بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا

رات کیا سوئے کہ باقی عمر کی نیند اُڑ گئی
خواب کیا دیکھا کہ دھڑکا لگ گیا تعبیر کا

جانے تو کس عالم میں بچھڑا ہے کہ تیرے بغیر
آج تک ہر لفظ فریادی میری تحریر کا

جس طرح بادِل کا سایہ پیاس بھڑکاتا رہے
میں نے وہ عالم بھی دیکھا ہے تیری تصویر کا

کس طرح پایا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے
مجھ سا منکر بھی تو قائل ہو گیا تقدیر کا

عشق میں سر پھوڑنا بھی کیا کہ یہ بے مہر لوگ
جوئے خوں کو نام دیتے ہیں جوئے شِیر کا

جس کو بھی چاہا اسے شدت سے چاہا ہے فراز
سلسلہ ٹوٹا نہیں ہے درد کی زنجیر کا

No comments:

Post a Comment