Pages

Friday, 17 May 2013

یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں



یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں

جب آنکھ میں خواب دمکتے تھے
جب دِل میں داغ چمکتے تھے
جب پلکیں شہر کے رستوں میں
اشکوں کا نوُر لُٹاتی تھیں
جب سانسیں اُجلے چہروں کی
تن من میں پھوُل سجاتی تھیں
جب چاند کی رِم جھِم کرنوں سے
سوچوں میں بھنور پڑ جاتے تھے
جب ایک تلاطم رہتا تھا!

اپنے بے انت خیالوں میں
ہر عہد نبھانے کی قسمیں
خط خون سے لکھنے کی رسمیں
جب عام تھیں ہم دل والوں میں
اب اپنے پھیکے ہونٹوں پر
کچھ جلتے بجھتے لفظوں کے
یاقُوت پگھلتے رہتے ہیں

اَب اپنی گُم سُم آنکھوں میں
کچھ دھول ہے بکھری یادوں کی
کچھ گرد آلود سے موسم ہیں
اَب دُھوپ اُگلتی سوچوں میں
کچھ پیماں جلتے رہتے ہیں

اب اپنے ویراں آنگن میں
جتنی صُبحوں کی چاندی ہے
جتنی شاموں کا سونا ہے
اُس کو خاکستر ہونا ہے

اب یہ باتیں رہنے دیجے
جس عُمر میں قصّے پُنتے تھے
اُس عُمر کا غم سہنے دیجے
اَب اپنی اُجڑی آنکھوں میں
جتنی روشن سی راتیں ہیں
ُس عمر کی سب سوغاتیں ہیں

جس عُمر کے خواب خیال ہوُئے
وہ پچھلی عمر تھی بیت گئی
وہ عمر بتائے سال ہوئے

اَب اپنی دید کے رستے میں
کچھ رنگ ہے گزرے لمحوں کا
کچھ اشکوں کی باراتیں ہیں
کچھ بھولے بسرے چہرے ہیں
کچھ یادوں کی برساتیں ہیں

یہ پچھلے عشق کی باتیں ہیں!

No comments:

Post a Comment