ابھی کچھ بھی نہیں بدلا
درختوں پر وہی موسم ابھی تک مسکراتے ہیں
ابھی تک سرمئی شامیں ہمارے ساتھ روتی ہیں
ابھی تک میرے ہونٹوں پر تمھارے احمریں ہونٹوں کی خوشبو
رقص کرتی ہے
ابھی تک میری آنکھوں میں تمھارے خواب ہنستے ہیں
ابھی تک میرے ہاتھوں پر تمھاری اُنگلیوں کی نرم پوروں سے لکھے
سب حرف زندہ ہیں
ابھی تک میرے سینے میں تمھاری سانس چلتی ہے
ابھی تو راستوں پردودھیا پیروں سے پڑنے والے
سارے نقش قائم ہیں
ابھی الماریوں میں سارے تحفے گنگناتے ہیں
تمھارے خط ابھی بھی رات کی تنہائی میں مجھ سے
تمھاری بات کرتے ہیں
بہت سے سال گزرے ہیں… بہت سا وقت بیتا ہے
مری چاہت نہیں بیتی… میری ہمت نہیں گزری
ابھی کچھ بھی نہیں بدلا… ابھی کچھ بھی نہیں بدلا
اگر چاہو… اگر سمجھو… مری مانو…
تو لوٹ آئو…
No comments:
Post a Comment