Pages

Saturday, 13 July 2013

ہم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے


ہم جو ٹوٹے تو اس طرح ٹوٹے
جیسے ہاتھوں سے گر کے پتھر پہ
کوئی شفاف آئینہ ٹوٹے

جیسے پلکوں سے ٹوٹتا آنسو
جیسے سینے میں اک گُماں ٹوٹے

جیسے امید کی نازک ڈالی
جیسے آنکھوں میں خواب کی ڈوری
وقتِ طویل میں الجھ جائے
جیسے پیروں تلے سے زمیں نکلے
جیسے سر پہ آسماں ٹوٹے

جیسے ایک شاخ پہ بھروسہ کیا
اس پہ جتنے تھے آشیاں، ٹوٹے
جیسے وحشت سے ہوش آ جائے
جیسے تا دیر میں دھیاں ٹوٹے

کس نے دیکھا تھا ٹوٹنا اپنا
ہم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے

No comments:

Post a Comment