Pages

Wednesday, 7 August 2013

آنکھوں میں ایک چہرہ مرقوم ہو چکا ہے


اس کا بھی غم بہت اب معدوم ہو چکا ہے 
وہ خوش ہے کھو کے ہم کو معلوم ہو چکا ہے 

ہر سوچ میں وہ میری کچھ ایسے بس گیا ہے 
ہر فعل میرا اس سے موسوم ہو چکا ہے 

کیا بات ہو گئی ہے بادل نہیں برستا 
وہ حال پر تو میرے مغموم ہو چکا ہے 

رہتا ہے وہ نظر میں چاہے کہیں بھی جائے 
آنکھوں میں ایک چہرہ مرقوم ہو چکا ہے 

اک بار لوگ پھر سے دیوانے ہو رہے ہیں 
کہتے ہیں وہ دوبارہ معصوم ہو چکا ہے 

ہر شخص کہہ رہا ہے میرا اداس چہرہ 
اس بے وفا کے غم کا مفہوم ہو چکا ہے 

جو زندگی کے سارے دُکھ درد بانٹتا تھا 
اس سائے سے صفی اب محروم ہو چکا ہے

No comments:

Post a Comment