Pages

Wednesday, 7 August 2013

یوں دل میں تیری یاد اتر آتی ہے جیسے


پردیس میں غم ناک خبر آتی ہے جیسے 

آتی ہے تیرے بعد خوشی بھی تو کچھ ایسے 
ویران درختوں پہ سحر آتی ہے جیسے 

لگتاہے ابھی دل نے تعلق نہیں توڑا 
یہ آنکھ تیرے نام پہ بھر آتی ہے جیسے 

خود آپ ہوا روز ا ٹھاتی ہے دعائیں 
اور آپ کہیں دفن بھی کر آتی ہے جیسے 

اک قافلۂ ہجر گذرتا ہے نظر سے 
اور روح تلک گرد سفر آتی ہے جیسے 

جلتا ہے کوئی شہر کبھی دامن دل میں 
سانسوں میں کبھی راکھ اتر آتی ہے جیسے

No comments:

Post a Comment