Pages

Sunday, 8 June 2014

شہر کی آوارہ گلیوں میں



چوک سے چل کر، منڈی سے ہو کر
لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا
بھولے بھالے اک بچے نے
بےمعنی کو معنی دے کر
ردی کے کاغذ پر کیسا ظلم کیا

No comments:

Post a Comment