Pages

Saturday, 6 September 2014

محبّت تو خوش گمان ہے













تمہاری انگشتری کے نگ میں
میری محبّت چمک رہی ہے
اگر کبھی یہ گماں بھی گزرے
کہ میں تمہیں بھولنے لگا ہوں
تو اس نگینے کو غور سے دیکھو
میری نگاہوں کی جگمگاہٹ
تمہاری آنکھوں سے یہ کہے گی
،“سنو“
“محبّت تو خوش گمان ہے“
اگر کوئی بغضِ دل کا مارا
تمہارے سینے میں وسوسوں کے
کیسے خنجر اُتارتا ہو
کہ وہ جو دل پھینک و بے وفا ہے
کہ وہ سب پر فریفتہ ہے
کہ وہ جو پردیس جا بسا ہے
تمہیں بھنور بیچ چھوڑ دے گا
وفا کے سب قول توڑ دے گا
چلو بس اب اُس کو بھول جاؤ
تو اس سے پہلے کہ جل بجھو تم
تو اس سے پہلے کہ یہ کہو تم
وہ عہد و پیمان سب غلط تھے
وفا کے عنوان سب غلط تھے
سحر کے امکان سب غلط تھے
تم اپنی انگشتِ مہوش پر
گلاب چہرہ جھکا کے کہنا
سنو، وہ سچ مچ بے وفا ہے ؟
تمہارا روتا سوال سن کر
وہ شوخ نگ مسکرا پڑے گا
تمہارے گالوں کو تھپتھپا کر
حسین انگشتری کہے گی
“سنو“
“محبّت تو خوش گمان ہے“

No comments:

Post a Comment