Pages

Saturday, 6 September 2014

میری اتنی سی خواہش ہے




میری اتنی سی خواہش ہے
کہ میں اک آسماں ہوتا
اور تو میری زمیں ہوتی
میں جھک کر تیرے سارے غم
اپنے کاندھوں پر ڈھو لیتا
تیری تکلیفیں اور کٹھنائیاں
خود میں سمو لیتا
میرے بادلوں سے بارشیں
چھم چھم برستی تو تجھے سیراب کر دیتیں
وہ تیری پیاس کو پی کر تجھے شاداب کر دیتیں
میرے سورج کی کرنیں تجھ پر پڑتی تو
بڑی انمول ہو جاتیں
ہوا سے مل کر نئی اک شکل میں ڈھلتیں
منزل کے بول ہو جاتیں
میں تجھ سے روٹھتا تو تاریک رات ہو جاتا
مگر پھر بھی میرا چندا تیرے ہی ساتھ ہو جاتا
لیکن جاناں! 
میں نے مانا
کہ ایسا ہو نہیں سکتا
نجانے کس کی سازش ہے
مگر پھر بھی میری اتنی سی 
خواہش ہے

No comments:

Post a Comment