Pages

Wednesday, 19 August 2015

سوچ رکھا تھا، اسے اک دن بتاؤں گا

`
JUST A MINUTE
ذرا سا تو ٹھہر اے دل۔۔۔۔۔۔۔!
ابھی کچھ کام باقی ہیں
ابھی آنگن میں مجھ کو موتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں
ابھی ان شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو
مرے ہونٹوں پہ کھلنا ہے
ابھی اس جسم نے مجھ سے
بہت سی بات کرنی ہے
ابھی اس دل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو
مجھے اپنے بدن میں، روح میں بھرنا ہے
اس کے ساتھ جانے کتنے رستے ہیں
اکٹھے جن پہ چلنا ہے
ابھی کچھ ایسے وعدے ہیں
کہ جن کو پورا کرنے کا کئی برسوں سے لمحہ ہی مسیر آ نہیں پایا
ابھی وہ وقت آنا ہے
ابھی وعدے نبھانے ہیں
ابھی کچھ شعر ایسے ہیں کہ جو میں کہہ نہیں پایا
انہیں تحریر کرنا ہے
ابھی کچھ گیت ایسے ہیں کہ جن کی دُھن بنانی ہے
ادھوری سی کسی تصویر کی تکمیل کرنا ہے
کئی کاغذ ہیں وہ جن پر مرے سائن ضروری ہیں
ابھی کچھ ایسی باتیں ہیں کہ جو برسوں سے
میرے ذہن میں تھیں
سوچ رکھا تھا، اسے اک دن بتاؤں گا
بتانی ہیں
ابھی کچھ قصے ایسے ہیں کہ جو اس کو سنانے ہیں
کئی کوتاہیاں ایسی بھی ہیں جن پر ندامت ہے
اسے سب کچھ بتا کر 
بوجھ اِس دل کا گھٹانا ہے
ابھی کچھ دیر پہلے بس ذرا سی دیر پہلے ہی
ذرا سی بات پر وہ مجھ سے رُوٹھا تھا
ذرا سا تو ٹھہر اے دل
ابھی اس کو منانا ہے
ابھی اس کو منانا ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔

No comments:

Post a Comment