Pages

Sunday, 20 September 2015

کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے


غزل کو پھر سجا کے صُورتِ محبوب لایا ہوں
سُنو اہلِ سُخن! میں پھر نیا اسلُوب لایا ہوں

کہو، دستِ محبت سے ہر اِک در پر یہ دستک کیوں
کہا ، سب کے لیے میں پیار کا مکتُوب لایا ہوں

کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے
کہا، اِک واقعہ میں آپ سے منسُوب لایا ہوں

کہو ، یہ جسم کِس کا، جاں کِس کی، رُوح کِس کی ہے
کہا، تیرے لیے سب کچھ مرے محبُوب لایا ہوں

کہو، کیسے مٹا ڈالوں انا، میں التجا کر کے
کہا ، میں بھی تو لب پر عرضِ نامطلُوب لایا ہوں

کہو، سارا جہاں کیسے تمہارے گھر کے باہر ہے
کہا، سب جس کے دیوانے ہیں، وہ محبُوب لایا ہوں

کہو، پنہاں کِیا ہے کیا دلِ پردہ نشیں ہم سے
کہا، وصلِ نہاں کی خواہشِ محجُوب لایا ہوں

کہو،ٹُوٹے ہوئے شیشے پہ شبنم کی نمی کیسی
کہا، قلبِ شکستہ، دیدہٴ مرطُوب لایا ہوں

کہو، غم لائے ہو کتنا محبت میں بچھڑنے کا
کہا، بس یہ سمجھ لو گریہٴ یعقُوب لایا ہوں

کہا ، تکلیف لایا ہوں، نہیں ہے اِنتہا جس کی
کہا ، میں بھی وہیں سے دامنِ ایوب لایا ہوں

کہو، غواص کیا لائے ہو بحر ِدل کے غوطے سے
کہا، لایا ہوں جو کچھ بھی، بہت ہی خُوب لایا ہوں

کہا، کیا لے کے آئے ہو جہانِ بیوفائی سے
کہا، اِک چشم حیراں، اِک دلِ مضرُوب لایا ہوں

کہو، تحفہ، عدیم اشعار میں کیا لے کے آئے ہو
کہا، شعروں کی سُولی پر دلِ مصلُوب لایا ہوں

No comments:

Post a Comment