Pages

Saturday, 14 November 2015

خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں



خواب ساتھ رہنے کے نت نئے دکھاتا ہے
یہ جو اصل موسم ہے یہ گزرتا جاتا ہے

خود کو سبز ہی رکھا آنسوؤں کی بارش میں
ورنہ ہجر کا موسم کس کو راس آتا ہے

تو ہواؤں کا موسم تجھ کو کیا خبر جاناں
گردِ بد گمانی سےدل بھی ٹوٹ جاتا ہے

ایک تم ہی تھے ورنہ آدمی محبت میں
لاکھ آئیں دیواریں راستے بناتا ہے

ہم تو خیر ناداں تھے،منتظر رہے ورنہ
کون اپنی بینائی اس طرح گنواتا ہے

کتنےخواب آنکھوں میں زخم بننےلگتےہیں
جب ہوا کے ہونٹوں پر تیرا نام آتا ہے

سینکڑوں دکانیں ہیں وصل کے چراغوں کی
کون ہجر میں اپنا اب لہو جلاتا ہے

No comments:

Post a Comment