Pages

Tuesday, 24 November 2015

اک شخص میری عمر کے عنوان لے گیا



اک شخص میری عمر کے عنوان لے گیا
میرے یقین کا ہر اک سامان لے گیا

کچھ خواب تھے، کہ پھول تھے، تعبیر تھی یہاں
جاتے ہوئے وہ اپنے سب پیمان لے گیا

یادوں کے پھول جس میں سجاتی رہی تھی میں
ہاتھوں سے میرے کون یہ گلدان لے گیا

تنکوں کا آشیاں جو بنایا تھا شوق سے
وہ بھی اڑا کے ساتھ میں طوفان لے گیا

وعدہ بھی ساتھ لے گیا جاتے ہوئے وہ آج
ملنے کا آخری تھا جو امکان لے گیا

No comments:

Post a Comment