بے قرار سانسوں میں گونجتی صدائیں ہیں
اب کے اپنے ہونٹوں پہ کھوکھلی دعائیں ہیں
بے حِسی کے مارے ہیں اپنے شہر کہ سب لوگ
پاؤں سے زمیں، سر سے کھینچتے ردائیں ہیں
تیری چاہتوں نے کل خواب کچھ دکھائے تھے
آج اپنی نیندوں کو ڈھونڈتی نگاہیں ہیں
آگہی کے رستوں پر صرف زخم ملتے ہیں
اس پہ چلتے رہنے کی انگنت سزائیں ہیں
ہاں وہ پچھلے موسم تھے جن میں پھول کھلتے تھے
زہر اب فضاؤں میں گھولتی ہوائیں ہیں
No comments:
Post a Comment