Pages

Monday, 27 August 2012

جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے




جو اس کے چہرے پہ رنگ حیا ٹھہر جائے 
تو سانس، وقت، سمندر، ہوا ٹھہر جائے 

وہ مسکرائے تو ہنس ہنس پڑیں کئی موسم 
وہ گنگنائے تو باد صبا ٹھہر جائے 

سبک خرام صبا چال چل پڑے جب بھی 
ہزار پھول سر راہ آ ٹھہر جائے 

وہ ہونٹ ہونٹوں پہ رکھ دے اگر دم آخر 
مجھے گماں ہے کہ آئی قضا ٹھہر جائے 

میں اس کی آنکھوں میں جھانکوں تو جیسے جم جاؤں 
وہ آنکھ جھپکے تو چاہوں ذرا ٹھہر جائے

No comments:

Post a Comment