Pages

Monday, 10 December 2012

اس دل کے چند اثاثوں میں ایک موسم ہے برساتوں کا



اس دل کے چند اثاثوں میں ایک موسم ہے برساتوں کا
اک صحرا ہجر کی راتوں کا،اک جنگل وصل کے خوابوں کا

اس چودھویں رات کے سائے میں جب آخری بارملے تھے ہم
یہ دل پاگل کب بھولتا ہے وہ باغ سفید گلابوں کا

مرے خیمہء دل کے پاس کہیں اک جگنو ٹھہر گیا اور پھر
سیلاب تھا ساری بستی میں اندازوں کا ، آوازوں کا

ہم لوگ جنوں کے عالم میں منزل کی طلب بھی بھول گئے
اب دل کو بھلا سا لگتا ہے،صحرا میں عکس سرابوں کا

جن لفظوں کے کچھ معنی تھے وہ لفظ تو خواب ہوئے لیکن
اب شہر میں لگتا جاتا ہے اک میلہ نئی کتابوں کا

No comments:

Post a Comment