اس دل کے چند اثاثوں میں ایک موسم ہے برساتوں کا
اک صحرا ہجر کی راتوں کا،اک جنگل وصل کے خوابوں کا
اس چودھویں رات کے سائے میں جب آخری بارملے تھے ہم
یہ دل پاگل کب بھولتا ہے وہ باغ سفید گلابوں کا
مرے خیمہء دل کے پاس کہیں اک جگنو ٹھہر گیا اور پھر
سیلاب تھا ساری بستی میں اندازوں کا ، آوازوں کا
ہم لوگ جنوں کے عالم میں منزل کی طلب بھی بھول گئے
اب دل کو بھلا سا لگتا ہے،صحرا میں عکس سرابوں کا
جن لفظوں کے کچھ معنی تھے وہ لفظ تو خواب ہوئے لیکن
اب شہر میں لگتا جاتا ہے اک میلہ نئی کتابوں کا
No comments:
Post a Comment