Pages

Thursday, 21 March 2013

پھیکا پھیکا سا رہا جشنِ بہاراں اب کے


پھیکا پھیکا سا رہا جشنِ بہاراں اب کے
اور ویسا بھی نہ تھا رنگِ نگاراں اب کے

یاد ہم شام و سحر جس کو کیا کرتے ہیں
لوٹ کر آیا نہیں دل کا وہ مہماں اب کے

آؤ ہم تم بھی ذرا کھل کے کسی دن جی لیں
دل میں باقی نہ رہے کوئی بھی ارماں اب کے

صرف گلشن ہی نہیں مہکا ہے فصلِ گل سے
ڈھک گیا پھولوں کی چادر سے بیاباں اب کے

نیند شب بھر نہیں آ پائی عجب سوچوں میں
دل جلاتی ہی رہی آ تشِ سوزاں اب کے

حسبِ معمول دئیے یوں تو ہوئے تھے روشن
شہر میں ویسا نہ تھا رنگِ چراغاں اب کے

کچھ نہ کچھ بات تو تھی، جس کا ہمیں علم نہ تھا
لگ رہے تھے وہ ذرا ہم سے گریزاں اب کے

بس گئے اور کہیں جا کے دیوانے شائد
ہم نے دیکھے نہ کہیں چاک گریباں اب کے

No comments:

Post a Comment