Pages

Tuesday, 26 March 2013

آرائشِ خیال بھی ہو، دل کشا بھی ہو


آرائشِ خیال بھی ہو، دل کشا بھی ہو
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو

یہ کیا کہ روز ایک سا غم، ایک سی امید
اس رنجِ بےخمار کی اب انتہا بھی ہو

یہ کیا کہ ایک طور سے گزرے تمام عمر
جی چاہتا ہے اب کوئی تیرے سوا بھی ہو

ٹوٹے کبھی تو حسن شب و روز کا طلسم
اتنے ہجوم میں کوئی چہرہ نیا بھی ہو

دیوانگئ شوق کو یہ دھن ہے ان دنوں
گھر بھی ہو اور بے درودیوار سا بھی ہو

ہر شے پکارتی ہے پسِ پردہء سکوت
لیکن کسے سناؤں کوئی ہمنوا بھی ہو

فرصت میں سن شگفتگیء غنچہ کی صدا
یہ وہ سخن نہیں جو کسی نے کہا بھی ہو

پھرتے ہیں کیسے کیسے خیالات ذہن میں
لکھوں‌اگر زبان قلم آشنا بھی ہو

بزمِ سخن بھی ہو، سخن گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو


No comments:

Post a Comment