😊 I love poetry and specially Urdu poetry. I am here to share my favourite poetry with you. I hope you like it and please don't forget to show your love by liking, commenting and following the blog. 😊
Pages
▼
Wednesday, 29 April 2015
sab mohabbat ka ik pehar hai
yeh ko palkon pay rimJhim sitaaro'n ka maila sa hai
yeh jo teray bina koii itna akaila sa hai
"Zindagi" Teri yaadon say mehka hua shehar hai
sab mohabbat ka ik pehar hai...
saahilo'n pay gharonday banaaey thay Hum nay, Tumhe'n yaad hai?
rang barish men kaisay uraae'y thay Hum nay, Tumhe'n yaad hai..?
jaanay kis k liay ghar sajaa'ey thay Hum nay , Tumhe'n yaad hai..?
koi khushboo ka jhonka idhar aa nikalta kahii'n
guum hai neendo'n k sehra men khawabo'n ka rasta kahii'n
har khushi aatay jaatay huay waqt ki lehar hai
sab Mohabbat ka ik pehar hai...
Zindagii dhoop chaao'n ka ik khail hai, bheer chat'ti nahi
aur isi khail min din guzarta nahi, raat kat'ti nahi
pyaar kartay huay aadmi ki kabhi, umr ghat'ti nahi
dil kee dehleez par aks raoshan Teray naam say
ratJagay aaeeno'n men khile'n hain kahin shaam say
aik darya hai chaaro'n taraf, darmyaa'n behar hai...
sab mohabbat ka ik pehar hai...
سب محبت کا اک پہر ہے
یہ جو پلکوں پہ رِم جھِم ستاروں کا میلہ سا ہے
یہ جو تیرے بنا کوئی اتنا اکیلا سا ہے
زندگی تیری یادوں سے مہکا ہوا شہر ہے
سب محبت کا اک پہر ہے
ساحلوں پہ گھروندے بنائے تھے ہم نے، تمہیں یاد ہے
رنگ بارش میں کیسے اڑائے تھے ہم نے، تمہیں یاد ہے
جانے کس کے لیے گھر سجائے تھے ہم نے، تمہیں یاد ہے
کوئی خوشبو کا جھونکا ادھر آ نکلتا کہیں
گم ہے نیندوں کے صحرا میں خوابوں کا رستہ کہیں
ہر خوشی آتے جاتے ہوئے وقت کی لہر ہے
زندگی دھوپ چھاؤں کا اک کھیل ہے، بھیڑ چھَٹتی نہیں
اور اسی کھیل میں دن گزرتا نہیں، رات کٹتی نہیں
پیار کرتے ہوئے آدمی کی عمر، کبھی گھٹتی نہیں
دل کی دہلیز پر عکسِ روشن تیرے نام سے
رت جگے آئینوں میں کھلے ہیں کہیں شام سے
ایک دریا ہے چاروں طرف، درمیاں لہر ہے
سب محبت کا اک پہر ہے
Monday, 27 April 2015
Friday, 24 April 2015
Wednesday, 22 April 2015
Tuesday, 21 April 2015
Friday, 17 April 2015
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
تیرے پہلو سے جو اٹھوں گا تو مشکل یہ ہے
صرف اک شخص کو پاؤں گا جدھر جاؤں گا
اب ترے شہر میں آؤں گا مسافر کی طرح
سایۂ ابر کی مانند گزر جاؤں گا
تیرا پیماں وفا راہ کی دیوار بنا
ورنہ سوچا تھا کہ جب چاہوں گا، مرجاؤں گا
چارہ سازوں سے الگ ہے مرا معیار کہ میں
زخم کھاؤں گا تو کچھ اور سنور جاؤں گا
اب تو خورشید کو ڈوبے ہوئے صدیاں گزریں
اب اسے ڈھونڈنے میں تابہ سحر جاؤں گا
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاؤں گا مگر صبح تو کرجاؤں گا
درد پھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے
بھیگ جاتی ہیں اس امید پر آنکھیں ہر شام
شاید اس رات وہ مہتاب، لبِ جُو آئے
ہم تیری یاد سے کترا کے گزر جاتے، مگر
راہ میں پھولوں کے لب، سایوں کے گیسو آئے
وہی لب تشنگی اپنی، وہی ترغیبِ سراب
دشتِ معلوم کی، ہم آخری حد چھو آئے
سینے ویران ہوئے، انجمن آباد رہی
کتنے گل چہرے گئے، کتنے پری رُو آئے
آزمائش کی گھڑی سے گزر آئے تو ضیا
جشنِ غم جاری ہوا، آنکھ میں آنسو آئے
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہمارا دل کسی گہری جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
مرے ہم راہ اگرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہیں تو علم ہے میرے دل وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
اندھیری رات کی گہری خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لو بھی مدھم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
تمہارے روٹھ جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہواؤں اور پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ہے
ترے آنے کا موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
حقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں
متاع کوثر و زمزم کے پیمانے تری آنکھیں
فرشتوں کو بنا دیتی ہیں دیوانے تری آنکھیں
جہان رنگ و بو الجھا ہوا ہے ان کے ڈوروں میں
لگی ہیں کاکل تقدیر سلجھانے تری آنکھیں
اشاروں سے دلوں کو چھیڑ کر اقرار کرتی ہیں
اٹھاتی ہیں بہارِ نو کے نذرانے تری آنکھیں
وہ دیوانے زمام لالہ و گل تھام لیتے ہیں
جنہیں منسوب کر دیتی ہیں ویرانے تری آنکھیں
شگوفوں کو شراروں کا مچلتا روپ دیتی ہیں
حقیقت کو بنا دیتی ہیں افسانے تری آنکھیں
تیرے آنے کی جب خبر مہکے
تیرے آنے کی جب خبر مہکے
تیری خوشبو سے سارا گھر مہکے
شام مہکے تیرے تصور سے
شام کے بعد پھر سحر مہکے
رات بھر سوچتا رہا تجھ کو
ذہن و دل میرے رات بھر مہکے
یاد آئے تو دل منور ہو
دید ہو جائے تو نظر مہکے
تو گھڑی دو گھڑی جہاں بیٹھے
وہ زمیں مہکے وہ شجر مہکے
خوش چشم وخوش اطوار و خوش آور و خوش آندام
وہ یار پری چہرہ کہ کل شب کو سدھارا
طوفاں تھا، طلاطم تھا چھلاوہ تھا شرارا
گل بیز و گہر ریز و گہر و گہر تاب
کلیوں نے جسے رنگ دیا گل نے سنواراہ
نو خستہ و نورس و نو طلعت و نو خیز
وہ نقش جسے خود یدِ قدرت نے ابھارا
خوں ریز کم آمیز و دل آویز و جنوں خیز
ہنستا ہوا مہتاب ، دمکتا ہو تارا
خوش چشم وخوش اطوار و خوش آور و خوش آندام
ایک خال پہ قرباں سمر قندو بخارا
گل پیرہن و گل بدن و گل رخ و گل رنگ
ایمان شکن، آئینہ جبیں انجمن آرا
سرشار جوانی تھی کہ امڈے ہوئے بادل
شاداب تبسم تھا کہ جنت کا نظارا
زلفیں تھیں کہ ساون کی مچلتی ہوئی راتیں
شوخی تھی کہ سیلاب کا مڑتا ہوا دھارا
مرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا
مرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا
ایسا لگتا ہے جو یہ ہاتھ دعا کو اٹھیں
خود فرشتے چلے آتے ہوں زمیں کی جانب
سونپ کر مرمریں ہاتھوں کی ہتھیلی کو حناء
جو بھی مانگا ہو وہ چپ چاپ دیے جاتے ہوں
میرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا
ان کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
انہی ہاتھوں میں مرے خواب چُھپے ہیں مولا
اُنگلیاں مجھ کو محبت میں بھگو دیتی ہیں
انہی پوروں نے مرے درد چُنے ہیں مولا
ان کی رگ رگ میں محبت ہی محبت رکھنا
میرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا
اِنہی ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر ہے مرا
یہ جو کونے میں ستارہ ہے سکندر ہے مرا
خواب سے نرم خیالوں کی طرح نازک ہیں
ان کے ہر لَمس میں میرے لئے چاہت رکھنا
مرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا
مرے مولا یہ حسیں ہاتھ سلامت رکھنا