سخن کدے میں کسے پا کے میں نے کھویا تھا
کہ لفظ لفظ زباں سے لپٹ کے رویا تھا
بیاضِ جاں مری ترتیب دینے والے نے
ھر ایک حرف میں چہرہ ترا سمویا تھا
میں ایک ابر تھا لیکن ھوا کی قید میں تھا
یہی بہت ھے کہ آنچل تیرا بھگویا تھا
تری تلاش میں جو اک ستارہ رھتا تھا
وھی تو میری ھتھیلی پہ تھک کے سویا تھا
تمام گل تھے اسی کے وہ گل بہ گل مہکا
مگر وہ کانٹا جو اس نے مجھےچبھویا تھا
وہ دشت اور وہ دریا کسے خبر ھے رشید
وہ مجھ میںڈوب گیا یا مجھے ڈبویا تھا
No comments:
Post a Comment