😊 I love poetry and specially Urdu poetry. I am here to share my favourite poetry with you. I hope you like it and please don't forget to show your love by liking, commenting and following the blog. 😊
Pages
▼
Tuesday, 29 September 2015
Sunday, 27 September 2015
Wednesday, 23 September 2015
بارش میں کیا تنہا بھیگنا لڑکی
بارش میں کیا تنہا بھیگنا لڑکی
اسے بلا، جس کی چاہت میں
تیرا تن من بھیگا ہے
پیار کی بارش سے بڑھ کر کیا بارش ہوگی؟
اور جب اس بارش کے بعد
ہجر کی پہلی دھوپ کھلے گی
تجھ پر رنگ کے اسم کھلیں گے
Tuesday, 22 September 2015
Monday, 21 September 2015
Sunday, 20 September 2015
Ishq jab hadd say guzarta hai,amar hota hai
Mein nay maana keh yeh taqdeer ka likha hai attal
Mera emaan hai, duaaon men asar hota hai
Tujh ko maanguun ga khuda say junoon ke hadd tak
Ishq jab hadd say guzarta hai,amar hota hai
میـں نے مانـا کـہ یـہ تقـدیـر کـا لـکھـا ہـے اٹـل
میـــرا ایـمــان ہـــے، دعاؤں میں اثـر ہـوتــا ہـے
تجھ کو مانگوں گا خدا سے جنوں کی حد تک
عشــق جـب حــد سے گزرتا ہے، امَر ہوتا ہـے
نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز
نقشِ خیال دل سے مٹایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
تیری ہی زلفِ ناز کا اب تک اسیر ہوں
یعنی کسی کے دامِ میں آیا نہیں ہنوز
یعنی کسی کے دامِ میں آیا نہیں ہنوز
یادش بخیر جس پہ کبھی تھی تری نظر
وہ دل کسی سے میں نے لگایا نہیں ہنوز
وہ دل کسی سے میں نے لگایا نہیں ہنوز
محرابِ جاں میں تونے جلایا تھا خود جسے
سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز
سینے کا وہ چراغ بجھایا نہیں ہنوز
بے ہوش ہو کے جلد تجھے ہوش آگیا
میں بد نصیب ہوش میں آیا نہیں ہنوز
میں بد نصیب ہوش میں آیا نہیں ہنوز
تو کاروبارِ شوق میں تنہا نہیں رہا
میرا کسی نے ہاتھ بٹایا نہیں ہنوز
میرا کسی نے ہاتھ بٹایا نہیں ہنوز
گردن کو آج بھی تری بانہوں کی یاد ہے
یہ منتوں کا طوق بڑھایا نہیں ہنوز
یہ منتوں کا طوق بڑھایا نہیں ہنوز
مرکر بھی آئے گی یہ صدا قبرِ جوشؔ سے
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
بے درد میں نے تجھ کو بھلایا نہیں ہنوز
کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا
کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا
پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا
پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا
لوگ کب کب کے آشنا نکلے
وقت کتنا گریز پا نکلا
وقت کتنا گریز پا نکلا
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا
رات بھی آج بیکراں نکلی
چاند بھی آج غمزدہ نکلا
چاند بھی آج غمزدہ نکلا
سُنتے آئے تھے قصہء مجنوں
اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا
اب جو دیکھا تو واقعہ نکلا
ہم نے مانا وہ بے وفا ہی سہی
کیا کرو گے جو با وفا نکلا
کیا کرو گے جو با وفا نکلا
مختصر تھیں فراق کی گھڑیاں
پھیر لیکن حساب کا نکلا
پھیر لیکن حساب کا نکلا
کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے
غزل کو پھر سجا کے صُورتِ محبوب لایا ہوں
سُنو اہلِ سُخن! میں پھر نیا اسلُوب لایا ہوں
سُنو اہلِ سُخن! میں پھر نیا اسلُوب لایا ہوں
کہو، دستِ محبت سے ہر اِک در پر یہ دستک کیوں
کہا ، سب کے لیے میں پیار کا مکتُوب لایا ہوں
کہا ، سب کے لیے میں پیار کا مکتُوب لایا ہوں
کہو، کیا داستاں لائے ہو دل والوں کی بستی سے
کہا، اِک واقعہ میں آپ سے منسُوب لایا ہوں
کہا، اِک واقعہ میں آپ سے منسُوب لایا ہوں
کہو ، یہ جسم کِس کا، جاں کِس کی، رُوح کِس کی ہے
کہا، تیرے لیے سب کچھ مرے محبُوب لایا ہوں
کہا، تیرے لیے سب کچھ مرے محبُوب لایا ہوں
کہو، کیسے مٹا ڈالوں انا، میں التجا کر کے
کہا ، میں بھی تو لب پر عرضِ نامطلُوب لایا ہوں
کہا ، میں بھی تو لب پر عرضِ نامطلُوب لایا ہوں
کہو، سارا جہاں کیسے تمہارے گھر کے باہر ہے
کہا، سب جس کے دیوانے ہیں، وہ محبُوب لایا ہوں
کہا، سب جس کے دیوانے ہیں، وہ محبُوب لایا ہوں
کہو، پنہاں کِیا ہے کیا دلِ پردہ نشیں ہم سے
کہا، وصلِ نہاں کی خواہشِ محجُوب لایا ہوں
کہو،ٹُوٹے ہوئے شیشے پہ شبنم کی نمی کیسی
کہا، قلبِ شکستہ، دیدہٴ مرطُوب لایا ہوں
کہا، قلبِ شکستہ، دیدہٴ مرطُوب لایا ہوں
کہو، غم لائے ہو کتنا محبت میں بچھڑنے کا
کہا، بس یہ سمجھ لو گریہٴ یعقُوب لایا ہوں
کہا، بس یہ سمجھ لو گریہٴ یعقُوب لایا ہوں
کہا ، تکلیف لایا ہوں، نہیں ہے اِنتہا جس کی
کہا ، میں بھی وہیں سے دامنِ ایوب لایا ہوں
کہا ، میں بھی وہیں سے دامنِ ایوب لایا ہوں
کہو، غواص کیا لائے ہو بحر ِدل کے غوطے سے
کہا، لایا ہوں جو کچھ بھی، بہت ہی خُوب لایا ہوں
کہا، لایا ہوں جو کچھ بھی، بہت ہی خُوب لایا ہوں
کہا، کیا لے کے آئے ہو جہانِ بیوفائی سے
کہا، اِک چشم حیراں، اِک دلِ مضرُوب لایا ہوں
کہا، اِک چشم حیراں، اِک دلِ مضرُوب لایا ہوں
کہو، تحفہ، عدیم اشعار میں کیا لے کے آئے ہو
کہا، شعروں کی سُولی پر دلِ مصلُوب لایا ہوں
کہا، شعروں کی سُولی پر دلِ مصلُوب لایا ہوں
تیری انجمن، تیرا ھر کرم،تیری چاھتیں تو چھن گئیں
یوں ماتمی سے لباس میں کوئی آہ و فغاں ھے آج بھی
جیسے چشم تر میں خواب کوئی پریشاں ھے آج بھی
میں زندگی کی راہ گزر پر در بدر ھوں اس لیے
کہ محبتوں کے شھر میں دل بے مکاں ھے آج بھی
تیری آرزو ھے بہت مگر،میری پہنچ نھیں ھے اس قدر
میری خواھشوں کے واسطے تو آسماں ھے آج بھی
میں توحید کے ھر نصاب سے ویسے تو مسلمان ھوں
پر تجھے پوجنے کی بات ھے تو دل بے ایمان ھے آج بھی
تیری انجمن،تیرا ھر کرم،تیری چاھتیں تو چھن گئیں
مگر درد جو میرا نصیب تھا وہ مھربان ھے آج بھی
تیری اذیتوں کا سوال ھے تو مجھے کل بھی ضبط پہ ناز تھا
تجھے کوسنے کی بات ھے تو دل بے زباں ھے آج بھی
کبھی درد حد سے بڑھا بھی تو میں تیری حد سے بڑھا نھیں
میری سانس کی تسبیحوں میں اک تو ھی رواں ھے آج بھی
سو بادلوں کے سلسلے میری چھت پہ برس کے چلے گئے
پر جلا جلا دھواں دھواں میرا آسماں ھے آج بھی
مجھے کل ملے تھے کچھ گلاب جو تیرے لیے یہ کہہ گئے
تیرے انتظار میں سوگوار گلشن کا سامان ھے آج بھی
اب لگن لگی کیہہ کریئے
اب لگن لگی کیہہ کریئے
نہ جی سکیئے نہ مریئے
ایہہ اگن برہوں دی بھاری
کوئی ہماری پریت نیاری
بن درشن کیسے تریئے
اب لگن لگی کیہہ کریئے
نہ جی سکیئے نہ مریئے
تم سنو ہماری بیناں
موہے رات دنے ناہیں چیناں
ہُن پی بن پلک نہ سریئے
اب لگن لگی کیہہ کریئے
نہ جی سکیئے نہ مریئے
بلھا پئی مصیبت بھاری
کوئی کرو ہماری کاری
ایہو جیہے دکھ کیسے جریئے
اب لگن لگی کیہہ کریئے
نہ جی سکیئے نہ مریئے
Friday, 18 September 2015
Thursday, 17 September 2015
تمہاری یاد کی خوشبو، کمال کرتی ہے
تمہاری یاد کی خوشبو، کمال کرتی ہے
خلوصِ دل سے مری دیکھ بھال کرتی ہے
خلوصِ دل سے مری دیکھ بھال کرتی ہے
مجھے یہ جوڑ کے رکھتی ہے ہجر میں تجھ سے
یہ زندگی مرا کتنا خیال کرتی ہے
یہ زندگی مرا کتنا خیال کرتی ہے
اکیلا گھومنے نکلوں تو راستے کی ہوا
تمہارے بارے میں مجھ سے سوال کرتی ہے
تمہارے بارے میں مجھ سے سوال کرتی ہے
تمہارے غم میں سسکتی ہوئی یہ تنہائی
تمام رات بڑی قیل و قال کرتی ہے
تمام رات بڑی قیل و قال کرتی ہے
توقعات ، مجھے توڑ پھوڑ دیتی ہیں
اُمید ، مجھ کو ہمیشہ نڈھال کرتی ہے
اُمید ، مجھ کو ہمیشہ نڈھال کرتی ہے
خُدا گواہ ، میں زندہ بدست مردہ ہوں
شبِ فراق ، بُرا میرا حال کرتی ہے
شبِ فراق ، بُرا میرا حال کرتی ہے
اگر یہ سچ ہے ، محبّت ہے زندگی مسعودؔ
تو پھر یہ کیوں میرا جینا محال کرتی ہے
تو پھر یہ کیوں میرا جینا محال کرتی ہے
Tuesday, 15 September 2015
Saturday, 12 September 2015
یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے`
یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
یہ دل گئے دنوں کی رفاقت میں اب بھی ہے
اِک یاد ہے جو نقش ہے لوحِ دماغ پر
اِک زخم ہے جو دل کی حِفاظت میں اب بھی ہے
رُکتے نہیں ہیں آنکھ میں آنسُو کِسی طرح
یہ کاروانِ شوق ، مُسافت میں اب بھی ہے
ترکِ تعلقات کو اِک عمر ہو چکی!
دل ہے کہ بے قرار محبت میں اب بھی ہے
سب دوست مصلحت کی دُکانوں پہ بِک گئے
دشمن تو پُرخلوص عداوت میں اب بھی ہے
آثارِ حشر سارے نمُودار ہو چکے
کہتے ہیں لوگ دیر قیامت میں اب بھی ہے
مجبُوریوں نے برف بنا دی اَنا، مگر
شعلہ سا ایک اپنی طبیعت میں اب بھی ہے
جس نے کیا تھا جرم وہ کب کا بَری ہوا
جو بےقصُور ہے، وہ عدالت میں اب بھی ہے
برسوں ہوئے جو زخمِ شناسائی سے ملا
وہ درد میری، اُس کی شراکت میں اب بھی ہے
مل جائے وہ کہیں تو اُسے کہنا اے ہوا
باقی ترا غموں کی حراست میں اب بھی ہے
Sunday, 6 September 2015
نغمہءِ عشق
نغمہ جو ختم بھی ہوا
ختم نہ ہو گی نغمگی
پھول جو سوکھ بھی گئے
یاد رہیں گی خوشبوئیں
پھول تو توڑے جاتے ہیں
تا کہ سجائی جا سکے
راحتِ یار کے لیے
پھولوں کی پتیوں سے سیج
تم تو چلے گئے مگر
یاد تمہاری رہ گئی
اور تمہاری یاد کی
خوشبوؤں میں بسی ہوئی
نرم و گداز سیج پر
سویا ہوا ہے میرا دل
میں تیرے شہر محبت میں ہوں وہ بیگانہ
نظر میں ڈھل کے ابھرتے ہیں دل کے افسانے
یہ اور بات ہے ، دنیا نظر نہ پہچانے
وہ بزم دیکھی ہے میری نگاہ نے کہ جہاں
بغیر شمع بھی جلتے رہے ہیں پروانے
یہ کیا بہار کا جوبن ، یہ کیا نشاط کا رنگ
فسردہ میکدے والے ، اداس میخانے
مرے ندیم ! تری چشم التفات کی خیر
بگڑ بگڑ کے سنورتے گیے ہیں افسانے
یہ کس کی چشم فسوں ساز کا کرشمہ ہے
کہ ٹوٹ کر بھی سلامت ہیں دل کے بت خانے
نگاہ ناز میں دلسوزی نیاز کہاں
یہ آشنائے نظر ہیں دلوں سے بیگانے
میں تیرے شہر محبت میں ہوں وہ بیگانہ
کہ آشنا بھی جسے دیکھ کر نہ پہچانے
وہ دیکھتی ہے تبسم میرے لبوں کی ہنسی
جو میرے دل پہ گزرتی ہے ، کوئی کیا جانے
Thursday, 3 September 2015
میری محبت میں کہیں کوئی کمی تھی
پھر تم نے میری زیست میں ہلچل سی مچا دی
مشکل سے تو حالات کی رفتار تھمی تھی
حالات نے جب مجھ کو بنا ڈالا تھا پتھر
پھر میرے لیے کوئی خوشی تھی نہ غمی تھی
اب کیسے کہیں کیسا تھا وہ ضبط کا عالم
ہونٹو ں پہ تبسم تھا تو آنکھوں میں نمی تھی
یا اُس کے ارادوں میں کوئی کھوٹ تھا عذرا
یا میری محبت میں کہیں کوئی کمی تھی
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
وہ حبس ہے کہ دعا کررہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے
خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے۔