Pages

Monday, 31 August 2015

آخر کیا مشکل میری پہچان میں ہے



مجھ کو دیکھنے والے تو کس دھیان میں ہے 
آخر کیا مشکل میری پہچان میں ہے 

اپنےہجر کے پسِ منظر میں جھانک مجھے 
میری سب روداد اِسی عنوان میں ہے 

کب سننے دیتی ہے شور سمندر کا 
پانی کی اِک بوند جو میرے کان میں ہے 

بن سوچے سمجھے توثیق نہیں کرتا 
کفر وہ شامل جو میرے ایمان میں ہے 

ٹانک دو اس میں اِک مصنوعی تتلی بھی 
کاغذ کا جو گلدستہ گلدان میں ہے 

حجرے میں گر کوئی بات ہوئی تو کیا 
تھوڑا سا شیطان تو ہرانسان میں ہے 

شوق تو یہ ہے آج کے فاتح کہلائیں 
جنگ ابھی تک ماضی کے میدان میں ہے 

پچھلی تحریروں کو بھول کے اے شاعر 
تیرا نیا قصیدہ کس کی شان میں ہے

بُجھ گیا ہے وُہ ستارہ جو مِری رُوح میں تھا



بُجھ گیا ہے وُہ ستارہ جو مِری رُوح میں تھا 
کھو گئی ہے وُہ حرارت جو تِری یاد میں تھی

وُہ نہیں عِشرت ِ آسودگیء منزِل میں 
جو کسک جادہء گُم گشتہ کی اُفتاد میں تھی

دُور اِک شمع لرزتی ہے پس ِ پردہء شب 
اِک زمانہ تھا کہ یہ لَو مِری فریاد میں تھی

ایک لاوے کی دھمک آتی تھی کُہساروں سے 
اِک قیامت کی تپش تیشہء فرہاد میں تھی

ناسِخ ساعت ِ اِمروز کہاں سے لائے 
وُہ کہانی جو نظر بندیء اجداد میں تھی

تُو سمندر ہے تو پھر اپنی سخاوت بھی دکھا


خود سے روٹھوں تو کئی روز نہ خود سے بولوں
پھر کسی درد کی دیوار سے لگ کر رو لوں

تُو سمندر ہے تو پھر اپنی سخاوت بھی دکھا
کیا ضروری ہے کہ میں پیاس کا دامن کھولوں

میں کہ اک صبر کا صحرا نظر آتا ہوں تجھے
تُو جو چاہے تو تیرے واسطے دریا رو لوں

اور معیار رفاقت کے ہیں ، ایسا بھی نہیں
جو محبت سے ملے ساتھ اُسی کے ہو لوں

خود کو عمروں سے مقفل کئے بیٹھا ہوں
وہ جو آئے تو خلوت کدہء جاں کھولوں

Sunday, 30 August 2015

میں تمیں پھر ملوں گی


میں تمیں پھر ملوں گی

کہاں ،کس طرح ، پتہ نہیں

شاید تمہارے تخیل کی سوچ بن کے

تمہارےکینوس پر اُتروں گی

یا شاید تمہارے کینوس کے اوپر

ایک سرمئی سی لکیر بن کے

خاموش تمہیں دیکھتی رہوں گی

یا شاید سورج کی لو بن کر

تمہارے رنگوں میں گھلوں گی

یا رنگوں کی بانہوں میں بیٹھ کر

تمہارےکینوس کو حصار میں لوں گی

پتہ نہیں ، کس طرح ، کہاں

پر تمہیں ضرور ملوں گی

یا شاید ایک چشمہ بنی ہوں گی

جس طرح جھرنوں کا پانی اڑتا ہے

میں پانی کی بوندیں

تمہارے جسم پر ملوں گی

تو ایک ٹھنڈک سی بن کر

تمہارے سینے سے لگوں گی

میں اور کچھ نہیں جانتی

پر اتنا جانتی ہوں

کہ وقت جو بھی کرے گا

یہ زمانہ میرے ساتھ چلے گا

یہ جسم ختم ہوتا ہے

تو سب کچھ ختم ہو جاتا ہے

پر یادوں کے دریچے

کائنات میں کس کے ہوتے ہیں

میں انہیں لوگوں کو چنوں گی

دھاگوں کو بل دیا کروں گی

میں تمہیں پھر ملوں گی

شبِ فراق کا ہر پل عذاب جیسا ہے


ہیں آنکھیں جھیل سی، چہرہ کتاب جیسا ہے
کہ میرے یار کا ہر نقش خواب جیسا ہے

کسی بھی بات پر اب بھیگتی نہیں آنکھیں
کہ اپنا حال سُوکھے چناب جیسا ہے

یہ آرزو ہے کبھی تو اندھیری شب میں ملے
وہ ایک شخص کہ جو ماہتاب جیسا ہے

یہ سازِ جان تو خاموش ایک عمر سے ہے
اگرچہ لہجہ ابھی تک رباب جیسا ہے

میں اُس کے حسن کی تعریف کس طرح سے کروں؟
وہ آفتاب سا، ماہتاب جیسا ہے

تمھارے بعد میں کس چیز سے لگاؤں دل؟
مری نظر میں سبھی کچھ حباب جیسا ہے

ہر ایک ذرہ چمکدار کیوں نہیں ہوتا؟
ہر ایک ذرہ اگر آفتاب جیسا ہے

کسے سناؤں میں اس دل کی داستاں واثق؟
شبِ فراق کا ہر پل عذاب جیسا ہے

فِگار پاؤں مرے،اشک نارسا میرے


فِگار پاؤں مرے،اشک نارسا میرے
کہیں تو مِل مجھے ،اے گمشدہ خدا میرے

میں شمع کُشتہ بھی تھا،صبح کی نوید بھی تھا
شکست میں کوئی انداز دیکھتا میرے

وہ دردِ دل میں ملا،سوزِجسم و جا ں میں ملا
کہاں کہاں اسے ڈھونڈا جو ساتھ تھا میرے

ہر ایک شعر میں،میں اُس کا عکس دیکھتا ہوں
مری زباں سے جو اشعار لے گیا میرے

سفر بھی میں تھا،مسا فر بھی تھا،راہ بھی میں
کوئی نہیں تھا کئی کوس ما سوا میرے

وفا کا نام بھی زندہ ہے،میں بھی زندہ ہوں
اب اپنا حال سنا ،مجھ کو بے وفا میرے

وہ چارہ گر بھی اُسے دیر تک سمجھ نہ سکا
جگر کا زخم تھا ،نغموں میں ڈھل گیا میرے

آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی


ٹھہری ٹھہری ہوئی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی

آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی

مدّتوں بعد چلا اُن پہ ہمارا جادو
مدّتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی

مدّتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدّتوں بعد ہمیں پیاس چُھپانی آئی

مدّتوں بعد کھُلی وسعتِ صحرا ہم پر
مدّتوں بعد ہمیں خاک اُڑانی آئی

مدّتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدّتوں بعد ہمیں نیند سُہانی آئی

اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی

اب اس کے بعد ترا اور کیا ارادہ ہے


اب اس کے بعد ترا اور کیا ارادہ ہے
کہ میرا صبر ترے جبر سے زیادہ ہے

تو بوئے گل کی طرح اُڑ رہا ہے اور کوئی
تری تلاش میں برسوں سے پا پیادہ ہے

میں جنگ جیت کے تم کو معاف کر دوں گا
تمہاری سوچ سے بڑھ کر یہ دل کشادہ ہے

غریب شہر سمجھتی ہے جس کو یہ دنیا
وہ شخص خواب جزیروں کا شاہزادہ ہے

میں‌ سرگراں تھا مگر اتنا مضطرب تو نہ تھا
رگوں میں‌ آگ رواں ہے کہ موجِ بادہ ہے

جدا نہیں مری رنگِ زمین سے عامر
یہ اڑتی دھول مرے جسم کا لبادہ ہے

وقتِ رُخصت بڑا مُشکل تھا چھپانا غم کا


موسمِ گُل مِرا، خوشیوں کا زمانہ وہ تھا

ہنس کے جینے کا اگر تھا تو بہانہ وہ تھا

اک عجب دَورجوانی کا کبھی یوں بھی رہا  

میں کہانی جو زبانوں پہ فسانہ وہ تھا

اپنا کر لایا، ہراِک غم میں کہ جس پر تھوڑا

یہ گُماں تک بھی ہُوا، اُس کا نشانہ وہ تھا

دل، عقیدت سے رہا اُس کی گلی میں، کہ اِسے

ایک مندر کی طرح کا ہی ٹھکانہ وہ تھا

وقتِ رُخصت بڑا مُشکل تھا چھپانا غم کا  

اشک آنکھوں سے رَواں تھے، جو روانہ وہ تھا

دشمنِ جاں جو سرِدست ہے ٹھہرا میرا

سر کا سایہ کبھی میرے کبھی شانہ وہ تھا

عاشقی کا نہ مجھے ہی مگر اُن کو بھی خلش 

رہ گیا یاد ہر اِک دن، کہ سُہانہ وہ تھا

یہ جو دیوار پہ کچھ نقش ہیں دھندلے دھندلے


دھوپ میں غم کی جو میرے ساتھ آیا ہوگا
وہ کوئی ا ور نہیں میرا ہی سایہ ہوگا

یہ جو دیوار پہ کچھ نقش ہیں دھندلے دھندلے
اس نے لکھ لکھ کے میرا نام مٹایا ہو گا

جس کے ہونٹوں پہ تبسم ہے مگر آنکھ ہے نم
اس نے غم اپنا زمانے سے چھپایا ہوگا

بے تعلق سی فضا ہوگی رہِ غربت میں
کوئی اپنا ہی ملے گا نہ پرایا ہوگا

اتنا ناراض ہو کیوں اس نے جو پتھر پھینکا
اس کے ہاتھوں سے کبھی پھول بھی آیا ہوگا

میری ہی طرح میرے شعر ہیں رسوا ساغر
کس کو اس طرح محبت نے ستایا ہوگا

ay dais say aanay walay bata

ay dais say aanay walay bata
woh shehar jo hum say chhoota hai,woh shehar hamara kesa hai
sab dost hamain pyaray hain magar woh jaan say pyara kesa hai

shab bazm e hareefaan sajti hai ya shaam dhalay so jatay hain
yaaron ki basar auqaat hai kaya,har anjuman aara kesa hai

jab bhi mai'khanay bnd he thay aur waa dar e zindaan rehta tha
ab mufti e deen kaya kehta hai,mausom ka ishara kesa hai

mai'khanay ka pindaar gaya,paimaanay ka mayaar kahan
kal talkhi e mai khalti thi,ab zehar gawara kesa hai

woh paas nhi,ehsaas to hai,,ik yaad to hai,ik aas to hai
darya e judaai men dekho tinkay ka sahara kesa hai

mulkon mulkon ghoomay hain bohat,jaagay hain bohat,roye hain bohat
ab tum ko bataayen kaya yaro,duniya ka nazaara kesa hai

yeh sham e sitam kat'ti he nhi,yeh zulmat e shab ghat'ti he nhi
meray bd'qismat logon ki qismat ka sitara kesa hai

kaya kooye nigaaran men ab bhi ushaaq ka mela lagta hai
ahal e dil nay qatil kay liye maqtal ko sanwaara kesa hai

kaya ab bhi hamaray gaaon men ghunghru hain hawa kay paaon men
ya aag lagi hai chhaaon men,ab waqt ka dhaara kesa hai

qaasid kay labon par kaya ab bhi aata hai hamara naam kabhi
woh bhi to khabar rakhta ho ga yeh jhagra sara kesa hai

her aik kasheeda qamat par kaya ab bhi kamandain parti hain
jab say woh maseeha daar hua, her dard ka maara kesa hai

kehtay hain keh ghar ab zindaan hain,suntay hain keh zindaan matal hain
yeh jabr khuda kay naam pay hai,yeh zulm khuda ra kesa hai

pindaar salamat hain keh nhi,bas yeh dekho,yeh mat dekho
jaan kitni reza reza hai,dil para para kesa hai

ay dais say aanay walay magar tum nay to na itna bhi poocha
woh kawi jisay bnbaas mila,woh dard ka maara kesa hai

                                      اے دیس سے آنے والے بتا 
وہ شہر جو ہم سے چھوٹا ہے، وہ شہر ہمارا کیسا ہے
سب دوست ہمیں پیارے ہیں مگر وہ جان سے پیارا کیسا ہے
شب بزمِ حریفاں سجتی ہے یا شام ڈھلے سو جاتے ہیں
یاروں کی بسر اوقات ہے کیا، ہر انجمن آرا کیسا ہے
جب بھی میخانے بند ہی تھے اور وا درِ زنداں رہتا تھا
اب مفتیِ دیں کیا کہتا ہے، موسم کا اشارہ کیسا ہے
میخانے کا پندار گیا، پیمانے کا معیار کہاں
کل تلخیَ مے بھی کھلتی تھی، اب زہر گوارا کیسا ہے
وہ پاس نہیں، احساس تو ہے، اک یاد تو ہے، اک آس توہے
دریائے جدائی میں دیکھو، تنک کا سہارا کیسا ہے
ملکوں ملکوں گھومے ہیں بہت، جاگے ہیں بہت، روئے ہیں بہت
اب تم کو بتائیں کیا یارو، دنیا کا نظارا کیسا ہے
یہ شامِ ستم کٹتی ہی نہیں، یہ ظلمتِ شب گھٹتی ہی نہیں
میرے بد قسمت لوگوں کی قسمت کا ستارہ کیسا ہے
کیا کوئے نگاراں میں اب بھی عشاق کا میلہ لگتا ہے
اہلِ دل نے قاتل کے لئے مقتل کو سنوارا کیسا ہے
کیا اَب بھی ہمارے گاؤں میں گھنگھرو ہیں ہَوا کے پاؤں میں
یا آگ لگی ہے چھاؤں میں، اَب وقت کا دھارا کیسا ہے
قاصد کے لبوں پر کیا اب بھی آتا ہے ہمارا نام کبھی
وہ بھی تو خبر رکھتا ہو گا، یہ جھگڑا سارا کیسا ہے
ہر ایک کشیدہ قامت پر کیا اب بھی کمندیں پڑتی ہیں
جب سے وہ مسیحا دار ہُوا، ہر درد کا مارا کیسا ہے
کہتے ہیں کہ گھر اَب زنداں ہیں، سنتے ہیں کہ زنداں مقتل ہیں
یہ جبر خدا کے نام پہ ہے، یہ ظلم خدارا کیسا ہے
پندار سلامت ہے کہ نہیں، بس یہ دیکھو، یہ مت دیکھو
جاں کتنی ریزہ ریزہ ہے، دل پارا پارا کیسا ہے
اے دیس سے آنے والے مگر تم نے تو نہ اتنا بھی پوچھا
وہ کوی جسے بن باس ملا، وہ درد کا مارا کیسا ہے

Tuesday, 25 August 2015

او دیس سے آنے والے بتا


او دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن؟
آوارۂ غربت کو بھی سنا کس رنگ میں ہیں کنعانِ وطن
وہ باغِ وطن، فردوسِ وطن، وہ سرو ِوطن، ریحانِ وطن
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی سرمست نظارے ہوتے ہیں
کیا اب بھی سہانی راتوں کو وہ چاند ستارے ہوتے ہیں
ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے، کیا اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا ہم کو وہاں کے باغوں کی مستاتہ فضائیں بھول گئیں؟
برکھا کی بہاریں بھول گئیں، ساون کی گھٹائیں بھول گئیں؟
دریا کے کنارے بھول گئے، جنگل کی ہوائیں بھول گئیں
کیا گاؤں میں اب بھی ویسی ہی، مستی بھری راتیں آتی ہیں؟
دیہات کی کمسن ماہ وشیں، تالاب کی جانب جاتی ہیں
اور چاند کی سادہ روشنی میں رنگیں ترانے گاتی ہیں
کیا گاؤں پہ اب بھی ساون میں برکھا کی بہاریں آتی ہیں؟
معصوم گھروں سے بُھوربَہِی چکّی کی صدائیں آتی ہیں؟
اور یاد میں اپنے میکے کی بچھڑی ہوئی سکھیاں گاتی ہیں؟
کیا اب بھی پرانے کھنڈروں پر تاریخ کی عبرت طاری ہے؟
انپُرن کے اجڑے مندر پر مایوسی و حسرت طاری ہے؟
سنسان گھروں پر چھاؤنی کی ویرانی و رِقّت طاری ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
شاداب شگفتہ پھولوں سے معمور ہیں گلزرا اب، کہ نہیں؟
بازار میں مالن لاتی ہے، پھولوں کے گندھے ہار اب، کہ نہیں؟
اور شوق سے ٹوٹے پڑتے ہیں، نوعمر خریدار، اب، کہ نہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں ویسی ہی جواں اور مدھ بھری راتیں ہوتی ہیں؟
کیا رات بھر اب بھی گیتوں کی اور پیار کی باتیں ہوتی ہیں؟
وہ حسن کے جادو چلتے ہیں وہ عشق کی گھاتیں ہوتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں کے پنگھٹ پر پِنہاریاں پانی بھرتی ہیں؟
آنگڑائی کا نقشہ بن بن کر، سب ماتھے پہ گاگر دھرتی ہیں؟
اور اپنے گھر کو جاتے ہوئے، ہنستی ہوئی چہلیں کرتیں ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی پہاڑی گھاٹیوں میں، گھنگھور گھٹائیں گونجتی ہیں؟
ساحل کے گھنیرے پیڑوں میں، برکھا کی صدائیں گونجتی ہیں؟
جھینگر کے ترانے جاگتے ہیں، موروں کی صدائیں گونجتی ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہاں میلوں میں وہی برسات کا جوبن ہوتا ہے؟
پھیلے ہوئے بڑ کی شاخوں میں، جھولوں کا نشیمن ہوتا ہے؟
امڈے ہوئے بادل ہوتے ہیں، چھایا ہوا ساون ہوتا ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی وہان برسات کے دن، باغوں میں بہاریں آتی ہیں؟
معصوم و حسیں دوشیزائیں، برکھا کے ترانے گاتی ہیں؟
اور تیتریوں کی طرح سے رنگيں جھولوں پر لہراتی ہيں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا پہلے سی ہے معصوم ابھی، وہ مدرسے کی شاداب فضا؟
کچھ بھولے ہوئے دن گزرے ہیں جس میں وہ مثالِ خواب فضا؟
وہ کھیل، وہ ہمسن، وہ میداں، وہ خواب گہِ مَہتاب فضا؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی کسی کے سینے میں باقی ہے ہماری چاہ بتا؟
کیا یاد ہمیں بھی کرتا ہے اب یاروں میں کوئی، آہ! بتا؟
او دیس سے آنے والے بتا، للّہ بتا للّہ بتا
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی فجر دم چرواہے، ریوڑ کو چرانے جاتے ہیں؟
اور شام کو دھندلے سایوں کے ہمراہ گھروں کو آتے ہیں؟
اور اپنی رسیلی بانسریوں میں عشق کے نغمے گاتے ہیں؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
آخر میں یہ حسرت ہے کہ بتا، وہ غارتِ ایماں کیسی ہے؟
بچپن میں جو آفت ڈھاتی تھی وہ آفتِ دوراں کیسی ہے؟
ہم دونوں تھے جس کے پروانے وہ شمعِ شبستاں کیسی ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
مرجاناں تھا جس کا نام بتا، وہ غنچۂ دہن کس حال میں ہے؟
جس پر تھے فدا طفلانِ وطن، وہ جانِ وطن کس حال میں ہے؟
وہ سروِ چمن، وہ رشکِ وطن، وہ سیم بدن کس حال میں ہے؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
اب نامِ خدا ہوگی وہ جواں، میکے میں ہے یا سُسرال گئی؟
دوشیزہ ہے یا آفت میں اسےکمبخت جوانی ڈال گئی؟
گھر پر ہی رہی یا گھر سے گئی، خوشحال رہی، خوشحال گئی؟
او دیس سے آنے والے بتا!۔
کیا اب بھی ہمارے گاؤں میں، گھنگرو ہیں ہوا کے پاؤں میں؟
کیا آگ لگی ہے چھاؤں میں، موسم کا اشارہ کیسا ہے؟
اے دیس سے آنے والے بتا، وہ دیس ہمارا کیسا ہے؟

کونپلیں ریت سے پُھوٹیں گی سر ِ دشت ِ وفا


کونپلیں ریت سے پُھوٹیں گی سر ِ دشت ِ وفا 
آبیاری کے لِیے خُون ِ جِگر تو لاؤ

کِسی گُھونگھٹ سے نکل آئے گا رُخسار کا چاند
جو اُسے دیکھ سکے ایسی نظر تو لاؤ

شہر کے کُوچہ و بازار میں سنّاٹا ہے
آج کیا سانِحہ گُذرا ہے خبر تو لاؤ

ایک لمحے کے لِیے اُس نے کِیا ہے اقرار
ایک لمحے کے لِیے عُمر ِ خضر تو لاؤ

Friday, 21 August 2015

کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا



کُھلی جو آنکھ ، تو وہ تھا، نہ وہ زمانہ تھا
دہکتی آگ تھی، تنہائی تھی، فسانہ تھا

غموں نے بانٹ لیا تھا مجھے یوں آپس میں
کہ جیسے میں کوئی لُوٹا ہُوا خزانہ تھا

یہ کیا کہ چند ہی قدموں پہ تھک کے بیٹھ گئے
تُمھیں تو ساتھ مِرا دُور تک نِبھانا تھا

مجھے، جو میرے لہو میں ڈبو کے گزُرا ہے
وہ کوئی غیر نہیں، یار اِک پُرانا تھا

خود اپنے ہاتھ سے شہزاد اُس کو کاٹ دِیا
کہ جس درخت کی ٹہنی پہ آشیانہ تھا

Thursday, 20 August 2015

وہ پھول کاڑھتی رہی


خزاں کی زرد شال پر وہ پھول کاڑھتی رہی
اُجڑتے ماہ و سال پر وہ پھول کاڑھتی رہی
دِلوں کے مرغزار میں
عجب اُداس شام تھی
گزرتے پل کے ہونٹ پر
وہ منتشر سا نام تھی
دکھوں کی تند دھار پر
لہولہان انگلیاں
مگر وہ سانس سانس اپنی عمر کے لباس پر
لہو کشیدتی رہی
گلاب سینچتی رہی
خزاں کی زرد شال پر اُجڑتے ماہ و سال پر
وہ پھول کاڑھتی رہی وہ پھول کاڑھتی رہی

Wednesday, 19 August 2015

وعدہ


اِس سے پہلے کہ تیری چشمِ کرم
معذرت کی نِگاہ بن جائے
اِس سے پہلے کہ تیرے بام کا حُسن
رفعت ِ مہر و ماہ بن جائے
پیار ڈھل جائے میرے اشکوں میں
آرزو ایک آہ بن جائے
مجھ پہ آ جائے عشق کا الزام
اور تو بے گناہ بن جائے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اِس سے پہلے کے سادگی تیری
لبِ خاموش کو گِلہ کہہ دے
میں تجھے چارہ گر خیال کروں
تو مرے غم کو لا دوَا کہہ دے
تیری مجبوریاں نہ دیکھ سکے
اور دل تجھ کو بے وفا کہہ دے
جانے میں بے خُودی میں کیا پُوچُھوں
جانے تو بے رُخی سے کیا کہہ دے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
چارہء درد ہو بھی سکتا تھا
مجھ کو اِتنی خُوشی بہت کچھ ہے
پیار گو جاوداں نہیں پھر بھی
پیار کی یاد بھی بہت کچھ ہے
آنے والے دِنوں کی ظلمت میں
آج کی روشنی بہت کچھ ہے
اِس تہی دامنی کے عالم میں
جو مِلا ہے، وہی بہت کچھ ہے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
چھوڑ کر ساحل ِ مراد چلا
اب سفینہ مِرا کہیں ٹھہرے
زہر پینا مِرا مقدر ہے
اور ترے ہونٹ انگبیں ٹھہرے
کِس طرح تیرے آستاں پہ رکوں
جب نہ پاوں تلے زمیں ٹھہرے
اِس سے بہتر ہے دل یہی سمجھے
تو نے روکا تھا، ہم نہیں ٹھہرے
میں ترا شیر چھوڑ جاؤں گا
مجھ کو اِتنا ضرور کہنا ہے
وقتِ رُخصت ،سلام سے پہلے
کوئی نامہ نہیں لکھا میں نے
تیرے حرفِ پیام سے پہلے
توڑ لوں رشتہء نظر میں بھی
تم اُتر جاؤ بام سے پہلے
لے مری جاں میرا وعدہ ہے
کل کِسی وقت شام سے پہلے
میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا

سوچ رکھا تھا، اسے اک دن بتاؤں گا

`
JUST A MINUTE
ذرا سا تو ٹھہر اے دل۔۔۔۔۔۔۔!
ابھی کچھ کام باقی ہیں
ابھی آنگن میں مجھ کو موتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں
ابھی ان شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو
مرے ہونٹوں پہ کھلنا ہے
ابھی اس جسم نے مجھ سے
بہت سی بات کرنی ہے
ابھی اس دل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو
مجھے اپنے بدن میں، روح میں بھرنا ہے
اس کے ساتھ جانے کتنے رستے ہیں
اکٹھے جن پہ چلنا ہے
ابھی کچھ ایسے وعدے ہیں
کہ جن کو پورا کرنے کا کئی برسوں سے لمحہ ہی مسیر آ نہیں پایا
ابھی وہ وقت آنا ہے
ابھی وعدے نبھانے ہیں
ابھی کچھ شعر ایسے ہیں کہ جو میں کہہ نہیں پایا
انہیں تحریر کرنا ہے
ابھی کچھ گیت ایسے ہیں کہ جن کی دُھن بنانی ہے
ادھوری سی کسی تصویر کی تکمیل کرنا ہے
کئی کاغذ ہیں وہ جن پر مرے سائن ضروری ہیں
ابھی کچھ ایسی باتیں ہیں کہ جو برسوں سے
میرے ذہن میں تھیں
سوچ رکھا تھا، اسے اک دن بتاؤں گا
بتانی ہیں
ابھی کچھ قصے ایسے ہیں کہ جو اس کو سنانے ہیں
کئی کوتاہیاں ایسی بھی ہیں جن پر ندامت ہے
اسے سب کچھ بتا کر 
بوجھ اِس دل کا گھٹانا ہے
ابھی کچھ دیر پہلے بس ذرا سی دیر پہلے ہی
ذرا سی بات پر وہ مجھ سے رُوٹھا تھا
ذرا سا تو ٹھہر اے دل
ابھی اس کو منانا ہے
ابھی اس کو منانا ہے۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب کے برس بھی نرگس کے پھول کمرہ بھرتے رہے



اب کے برس بھی نینوں میں رت جگے بسے رہے

اب کے برس بھی اندھیروں میں سحر ڈھونڈتے رہے


اب کے برس بھی فضا تعصب سے پُر تھی


اب کے برس بھی خنجر آستینوں میں چھپے تھے


اب کے برس بھی بھروسہ ہم دوستوں پر کرتے رہے


اب کے برس بھی ترے آنے کی ہم کو آس تھی


اب کے برس بھی انتظار میں جلتے رہے


اب کے برس بھی سندیسے ہوا لاتی رہی


اب کے برس بھی نرگس کے پھول کمرہ بھرتے رہے۔۔۔

اب کے برسات کی رُت اور بھی بھڑکیلی ہے



اب کے برسات کی رُت اور بھی بھڑکیلی ہے
جسم سے آگ نکلتی ہے قبا گیلی ہے

سوچتا ہوں کہ اب انجامِ سفر کیا ہوگا؟
لوگ بھی کانچ کےہیں راہ بھی پتھریلی ہے

شدتِ کرب میں تو ہنسنا کرب ہے میرا
ہاتھ ہی سخت ہیں زنجیر کہاں ڈھیلی ہے؟

گرد آنکھوںمیں سہی، داغ تو چہرے پہ نہیں
لفظ دھندلے ہیں مگر فکر تو چمکیلی ہے

گھول دیتا ہے سماعت میں وہ میٹھا لہجا
کس کو معلوم کہ یہ قِند بھی زہریلی ہے

پہلے رگ رگ سے مری خون نچوڑا اسنے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے

مجھکو بے رنگ نہ کردیں کہیں رنگ اتنے
سبزموسم ہے، ہوا سرخ، فضا نیلی ہے

میری پرواز کسی کو نہیں بھاتی تو نہ بھائے
کیا کروں ذہن مظفر میرا جبریلی ہے۔


Saturday, 15 August 2015

Mein nay barson ishq namaaz parhi



Mein nay barson ishq namaaz parhi
Tasbeeh e muhabbat haath liye

Chali hijr ki mein tableegh ko ab
Teri chaahat ki aayaat liye


Ik aag wohi namrood ki hai
Mein ashk hoon apnay saath liye


Majzoob hua dil banjara
Bas zakhmon ki soghaat liye


Dil masjid aankh musalla hai
Bethi hoon khaali haath liye


Ay kaash kahin say aa jaaye
Woh waadon ki khairaat liye

میں نے برسوں عشق نماز پڑھی



میں نے برسوں عشق نماز پڑھی
تسبیحِ محبت ہاتھ لئے

چلی ہجر کی میں تبلیغ کو اب
تری چاہت کی آیات لئے

اک آگ وہی نمرود کی ہے
میں اشک ہوں اپنے ساتھ لئے

مجذوب ہوا دل بنجارہ
بس زخموں کی سوغات لئے

دل مسجد آنکھ مصلیٰ ہے
بیٹھی ہوں خالی ہاتھ لئے


اے کاش کہیں سے آجائے
وہ وعدوں کی خیرات لئے

دِکھ رہی ہے جو مُجھے صاف تیری آنکھوں میں



دیکھ لینا کہ کسی دُکھ کی کہانی تو نہیں
یہ جو آنسو ہیں، کہیں اُس کی نشانی تو نہیں

دِکھ رہی ہے جو مُجھے صاف تیری آنکھوں میں
تُو نے یہ بات کہیں مُجھ سے چُھپانی تو نہیں

جانتا ہوں کہ سرابوں میں گِھرا ہوں یارو
دوڑ پڑتا ہوں مگر پِھر بھی کہ پانی تو نہیں

جس طرح شہر سے نکلا ہوں میں بیمار ترا
یہ اُجڑنا ہے، کوئی نقل مکانی تو نہیں

اُس نے چاہا ہے مُجھے اپنے خُدا سے بڑھ کر
میں نے یہ بات زمانے کو بتانی تو نہیں

یہ جو ہر موڑ پہ آ ملتی ہے مُجھ سے فرحتؔ
بدنصیبی بھی کہیں میری دیوانی تو نہیں

Tuesday, 4 August 2015

محبت کے مزاروں تک چلیں گے

محبت کے مزاروں تک چلیں گے
ذرا پی لیں! ستاروں تک چلیں گے

سنا ہے یہ بھی رسم عاشقی ہے
ہم اپنے غمگساروں تک چلیں گے

چلو تم بھی! سفر اچھا رہے گا
ذرا اجڑے دیاروں تک چلیں گے

جنوں کی وادیوں سے پھول چن لو
وفا کی یادگاروں تک چلیں گے

حسین زلفوں کے پرچم کھول دیجیے
مہکتے لالہ زاروں تک چلیں گے

چلو ساغر کے نغمے ساتھ لے کر
چھلکتی جوئے باراں تک چلیں گے

پوچھتا پھرتا ہوں داناؤں سے الفت کے رموز


ہے ازل کی اس غلط بخشی پہ حیرانی مجھے
عشق لافانی ملا ہے، زندگی فانی مجھے

میں وہ بستی ہوں کہ یادِ رفتگاں کے بھیس میں
دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے

تھی یہی تمہید میرے ماتمی انجام کی
پھول ہنستے ہیں تو ہوتی ہے پریشانی مجھے

حسن بے پردہ ہوا جاتا ہے یا رب کیا کروں
اب تو کرنی ہی پڑی دل کی نگہبانی مجھے

باندھ کر روز ازل شیرازۂ مرگِ حیات
سونپ دی گویا دو عالم کی پریشانی مجھے

پوچھتا پھرتا ہوں داناؤں سے الفت کے رموز
یاد اب رہ رہ کے آتی ہے وہ نادانی مجھے

Saturday, 1 August 2015

ٹھہر گیا ہے نگاہوں میں آخری منظر














تمہارے پاس سے میں 

اُٹھ کے آگیا ہوں مگر

ہر ایک شئے اُسی کمرے میں

چھوڑ آیا ہوں

وہ مُشک بار سی سانسیں

وہ دھیمی دھیمی مہک

وہ خوشگوار سی حدت

ہر ایک شئے 

اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں

وہ میرے چہرے کو تکتی ہوئی 

غزل آنکھیں

وہ جُھک کے اُٹھتی ہوئی

دلنواز پلکیں

وہ بےقرار نگاہیں

وہ سوگوار نظر

ہر ایک شئے

اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں

میرے لبوں پہ وہ گبھرا کے

ہاتھ رکھ دینا

وہ ان کہی میں ہر اِک بات

مجھ سے کہہ دینا

تمہارے پاس سے میں

اُٹھ کے آگیا ہوں مگر

ہر ایک شئے اُسی کمرے میں

چھوڑ آیا ہوں

کتابیں فیض کی بکھری ہوئی

سرہانے پر

نفی میں ہلتا وہ سر

بے خودی میں شانے پر

ہر ایک منظرِ زیبا

ہر ایک ساعتِ خوش

ہر ایک شئے 

اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں

وہ مہکتے ہوئے لب

وہ ڈبڈبائی نظر

وہ الوداعی تبسم سا

زرد چہرے پر

ٹھہر گیا ہے نگاہوں میں

آخری منظر

تمہارے پاس سے میں

اُٹھ کے آگیا ہوں مگر

ہر ایک شئے اُسی کمرے میں چھوڑ آیا ہوں۔