MUJHAY APNAY ZABT PAY NAAZ THA SAR E BAZAM RAAT YEH KAYA HUA,
MERI AANKH KESAY CHHALAK GAEE MUJHAY GHAM HAI YEH BURA HUA,
MUJHAY AAP HE KYUN NA SAMAJH SAKAY YEH KHUD DIL SAY APNAY POOCHIAY,
MERI DASTAN E HAYAAT KA WARQ WARQ HAI KHULA HUA,
MUJHAY HAMSAFAR BHI MILA KOI SITAM ZAREEF MERI TARAH,
KAHIN MANZILON KA THAKA HUA KAHIN RASTAY KA LUTA HUA,
MERAY IK GOSHA E FIKR MEI,MERI JAN SAY BHI AZEEZ TAR,
MERA AIK AISA DOST BHI HAI JO MILA KABHI NA JUDA HUA,
KAL MUJHAY SAR E RAAH IK BADNASEEB KA KHAT MILA,
KAHIN KHOON E DIL SAY LIKHA HUA,KAHIN AANSUON SAY MITA HUA.....
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھئے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
مرے ایک گوشہ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کو تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کہ حق ہی ادا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھئے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
مرے ایک گوشہ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹاہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کو تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کہ حق ہی ادا ہوا
No comments:
Post a Comment