صفحہٴ وقت پہ تحریر بدل جاتی ہے
آیتِ ہجر کی تفسیربدل جاتی ہے
ایسا اک وقت بھی آتا ہے میری نیند پہ جب
خواب سے پہلے ہی تعبیر بدل جاتی ہے
اب تو ہر لمحہ میرا قید میں کٹ جاتا ہے
فرق صرف اتنا ہے زنجیر بدل جاتی ہے
وقت ہر بات کو محفوظ تو کر لیتا ہے
ہاں مگر بات کی تاثیر بدل جاتی ہے
پڑھتا رہتا ہوں میں ہاتھوں کی لکیریں،یُوں بھی
میں یہ سنتا تھا کہ تقدیر بدل جاتی ہے
ایک مدّت سے اسے دیکھ رہا ہوں محسن
چھُونا چاہوں تو وہ تصویر بدل جاتی ہے
No comments:
Post a Comment