لوگوں نے ہنر اپنا دکھایا بھی بہت ہے
جا جا کے اسے میں نے منایا بھی بہت ہے
کچھ ایسے ہی گزرے ہیں یہ موسم یہ ماہ و سال
رویا ہوں بہت اس کو رلایا بھی بہت ہے
سچ پوچھو تو پیارا بھی بہت لگتا ہے دل کو
وہ شخص کہ دل جس نے دُکھایا بھی بہت ہے
گزرے ہوں فقط ہجر میں دن، یہ بھی نہیں بات
کھویا ہے بہت اس کو تو پایا بھی بہت ہے
اب کرنا پڑا آپ ہی افشاء اسے آخر
وہ راز کہ دنیا سے چُھپایا بھی بہت ہے
تپتے ہوئے رستے پہ مسافر کے لئے تو
ساعت کے لئے ابر کا سایہ بھی بہت ہے
کچھ بھید نہیں کھلتا خزانہ بھی بہت ہے
وافر ہیں وسائل بھی رعایا بھی بہت ہے
دھندلا ہی سہی پھر بھی نظر آتا ہے لکھا
اک حرف جو تختی سے مٹایا بھی بہت ہے
ہوتا ہی نہیں آنکھ سے اوجھل کسی لمحے
میں نے تو بشیر اس کو بُھلایا بھی بہت ہے
No comments:
Post a Comment