بکھر جانے سے پہلے ہی سنبھل کر دیکھ لیتے ہیں
چلو ہم بھی ہوا کی سمت چل کر دیکھ لیتے ہیں
کسے معلوم اقرارِ محبت رنگ بدلے گا
ابھی دل کو ترے دل سے بدل کر دیکھ لیتے ہیں
جہاں میں منتظر ہیں اور بھی غم ذات سے بڑھ کر
حصارِ ذات سے باہر نکل کر دیکھ لیتے ہیں
چھلک جاتے ہیں اب غم بھی تمنا بن کے آنکھوں سے
کہ اس دریا کو بھی اندر نگل کر دیکھ لیتے ہیں
ہوائے دشت سے کہنا ہماری سمت آ جائے
فراقِ ذات میں دونوں ہی جل کر دیکھ لیتے ہیں
No comments:
Post a Comment