ترے اثر سے نکلنے کے سو وسیلے کیےمگر وہ نین کہ تو نے تھے جو نشیلے کیےترے خیال نے دل سے اٹھائے وہ بادلپھر اس کے بعد مناظر جو ہم نے گیلے کیےابھی بہار کا نشـہ لہو میں رقصاں تھاکفِ خزاں نے ہر اک شے کے ہات پیلے کیےاُدھر تھا جھیل سی آنکھوں میں آسمان کا رنگاَدھر خیال نے پنچھی تمام نیلے کیےمحبتوںکو تم اتنا نہ سرسری لینامحبتوں نے صف آرا کئی قبیلے کیےیہ زندگی تھی کہ تھی ریت میری مٹھی میںجسے بچانے کے دن رات میں نے حیلے کیےکمالِ نغمہ گری میں ہے فن بھی اپنی جگہ
مگر یہ لوگ کسی درد نے سریلے کیے
No comments:
Post a Comment