فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے
دن تو تیرا ہے، مگر شام سے پہلے پہلے
کیسے دم توڑ گئیں سینے میں رفتہ رفتہ
حسرتیں ، حسرتِ ناکام سے پہلے پہلے
باعثِ فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا
گھر اجڑتے تھے اس الزام سے پہلے پہلے
آئے بِکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا
وہ جو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے
ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر
ہاں مگر گردشِ ایام سے پہلے پہلے
ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر
ہم بھی چونک اٹھتے تھے اک نام سے، پہلے پہلے
اب کے مشکل وہ پڑی ہے کہ یہ جاں جاتی ہے
سعد رہتے تھے ہم آرام سے پہلے پہلے
No comments:
Post a Comment