کاجل آنکھ میں نہ پھیل جائے کہیں
یہ شام بھی چُپ چاپ نہ سرک جائے کہیں
ہم جس کو دنیا سے چھپائے پھرتے ہیں
چرچا اُس کا عام نہ ہو جائے کہیں
ننھی بوندوں نے تو کی اِک ذرا سی شرارت
بھری برسات میں دل نہ بھر آئے کہیں
اُس نے تو اپنی کہہ کے محفل لُوٹ لی یارب
میری اس بار بھی دل میں نہ رہ جائے کہیں
دعا میں اُٹھتے تو ہیں ہاتھ اکثر
پر یہ دل ہی نہ پتھرا جائے کہیں
اب کے لوٹو تو رُک جانا دو گھڑی
زندگی یونہی نہ گُزر جائے کہیں۔۔
No comments:
Post a Comment