Pages

Friday, 30 November 2012

کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر























اپنی رسوائی، تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

شام بھی ہوگئ،دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے، میں ‌کب تک ترا رستہ دیکھوں

ایک اک کرکے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خود کو تری یاد میں‌ تنہا دیکھوں

کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں‌ وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں

تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لیئے دل کو دھڑکتا دیکھوں

بند کرکے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں‌ ہر روز تماشا دیکھوں

سب ضدیں اس کی میں پوری کروں، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں

مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں

پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پوجا ہے، اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ہے مگر مرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں


اُسے کہنا


















اُسے کہنا کہ اب وہ بارشوں کے موسم میں
دِل کے بند دریچوں کو وا نہیں کرتی


اُسے کہنا کہ اب وہ تتلیاں پکڑنے کو
کسی سر سبز جزیرے پر جایا نہیں کرتی


اُسے کہنا کہ اب وہ زندگی کے موضوع پہ
کوئی ترنم ریز نغمہ چھیڑا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ موجوں کے تلاطم سے
عہدِ ماضی کی طرح گھبرایا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ نرم خوابوں کی سر زمین پہ
گلاب کے سپنے سنجویا نہیں کرتی

اُسے کہنا اب وہ اپنے آنگن کے موتیا کو
کسی گجرے کے گہنے میں پرویا نہیں کرتی

اُسے کہنا کہ اب وہ سرد اور تاریک راتوں میں
جاگتی تو رھتی ھے ، رویا نہیں کرتی


گر فرصت ملے تو۔ مجھ سے ملنا۔


سُنا ہے تم بہت مصروف ہو
مصروف بھی اتنے کہ فرصت تم سے ملنے کو ترستی ہے
سُنو !
مصروفیت کے دائرے کو پاٹ کر
فرصت سے ملنے کا کبھی موقع ملے تو
سب سے پہلے خود سے ملنا
پھر فراغت کا کوئی لمحہ بچے تو
غم کے نم آلود رستوں پر کہیں سے دھوپ لا رکھنا
بھٹکتی شام سے پُروا کے دھیمے گیت سننا
آہٹوں کی تتلیوں کے رنگ چننا
بادلوں کی دھند میں چھپتے ہوئے منظر سے تصویریں بنانا
آئنہ رو ساعتوں کے عکس آنکھوں میں سجانا
وقت کے ساحل پہ گیلی ریت سے اک گھر بنانا
ہاتھ کے محراب سے دل کے دیئے کی تھرتھراتی لو کو بجھنے نہ دینا
پیڑوں کے دامن سے لپٹی ہوئی چھاؤں میں مہکی ہوئی باتیں چھپانا
اور پرندوں کی چہک سے نظم کے مصرے بنانا
یا پروں کی اوٹ سے چھنتی ہوئی کرنو ں سے
یادوں کی دھنک بھرنا
گر نہیں تو
کاسنی پھولوں کی صورت من کے سُونے پن میں کھِلنا
پھر بھی گر فرصت ملے تو۔
مجھ سے ملنا۔


تیرا ہاتھ سرد ہے کس لیے ، تیرا رنگ زرد ہے کس لیے



اُسی ایک شخص کے واسطے میرے دل میں درد ہے کس لیے
میری زندگی کا مطالبہ وہی ایک فرد ہے کس لیے

تُو جو شہر میں مقیم ہے تو مسافرت کی فضا ہے کیوں
تیرا کارواں جو نہیں گیا تو ہوا میں گرد ہے کس لیے

نہ جمال و حسن کی بزم ہے نہ جنون و عشق کا عزم
سرِ دشت رقص میں ہر گھڑی کوئی بادگرد ہے کس لیے

جو لکھا ہے میرے نصیب میں، کہیں تُو نے پڑھ تو نہیں لیا
تیرا ہاتھ سرد ہے کس لیے ، تیرا رنگ زرد ہے کس لیے

وہ جو ترکِ ربط کا عہد تھا ، کہیں ٹُوٹنے تو نہیں لگا
تیرے دل کے درد کو دیکھ کر، میرے دل میں درد ہے کس لیے

کوئی واسطہ جو نہیں رہا، تیری آنکھ میں یہ نمی ہے کیوں
میرے غم کی آگ کو دیکھ کر ، تیری آہ سرد ہے کس لیے

رشتۂِ جاں تھا کبھی جس کا خیال























سفر ِمنزل ِشب یاد نہیں
لوگ رخصت ہوئے کب یاد نہیں

اوّلیں قرب کی سرشاری میں
کتنے ارماں تھے جو اب یاد نہیں

دل میں ہر وقت چبھن رہتی تھی
تھی مجھے کس کی طلب یاد نہیں

وہ ستارہ تھی کہ شبنم تھی کہ پھول
ایک صورت تھی عجب یاد نہیں

کیسی ویراں ہے گزر گاہِ خیال
جب سے وہ عارض و لب یاد نہیں

بھولتے جاتے ہیں ماضی کے دیار
یاد آئیں بھی تو سب یاد نہیں

ایسا الجھا ہوں غم ِدنیا میں
ایک بھی خواب طرب یاد نہیں

رشتۂِ جاں تھا کبھی جس کا خیال
اس کی صورت بھی تو اب یاد نہیں

یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم
یاد ہی کب تھے جو اب یاد نہیں

یاد ہے سیر ِچراغاں ناصر
دل کے بجھنے کا سبب یاد نہیں


یہ شام کتنی سنہری ہے کیا سہانی ہے


نئی طرح سے نبھانے کی دل نے ٹھانی ہے
وگرنہ اس سے محبّت بہت پرانی ہے

خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میں کسی سے سنوں
کہ تو نے بھی غم ِدنیا سے ہار مانی ہے

زمین پہ رہ کے ستارے شکار کرتے ہیں
مزاج اہل ِمحبّت کا آسمانی ہے

ہمیں عزیز ہو کیوں کر نہ شام ِغم کہ یہی
بچھڑنے والے، تیری آخری نشانی ہے

اتر پڑے ہو تو دریا سے پوچھنا کیسا
کہ ساحلوں سے ادھر کتنا تیز پانی ہے

بہت دنوں میں تیری یاد اوڑھ کر اتری
یہ شام کتنی سنہری ہے کیا سہانی ہے

میں کتنی دیر اسے سوچتا رہوں محسن
کہ جیسے اس کا بدن بھی کوئی کہانی ہے


وہ مل گیا تو کیا قصہ فراق کہیں


یونہی تو شاخ سے پتے گرا نہیں کرتے 
بچھڑ کر لوگ زیادہ جیا نہیں کرتے 

جو آنے والے ہیں موسم انہیں شمار میں رکھ 
جو دن گزر گئے ان کو گنا نہیں کرتے 

نا دیکھا جان کے اس نے ! کوئی سبب ہوگا 
اسی خیال سے ہم دل برا نہیں کرتے 

وہ مل گیا تو کیا قصہ فراق کہیں 
خوشی کے لمحوں کو یوں بے مزہ نہیں کرتے 

نشاط قرب غم ہجر کے آواز مت مانگ 
دعا کے نام پہ یوں بدعا نہیں کرتے 

منافقت پہ جنہیں اختیار حاصل ہے 
وہ عرض کرتے ہیں ، تجھ سے گلہ نہیں کرتے 

ہمارے قتل پہ محسن یہ پس و پیش کیسی 
ہم ایسے لوگ طلب خون بہا نہیں کرتے 


Thursday, 29 November 2012

آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے

Dali Girl Looking at the Moon Through the Window

آنکھوں سے اک خواب گزرنے والا ہے
کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے

صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے
مہرِ عالم تاب گزرنے والا ہے

جادو گر کی قید میں تھے جب شہزادے
قصے کا وہ باب گزرنے والا ہے

ق

سناٹے کی دہشت بڑھتی جاتی ہے
بستی سے سیلاب گزرنے والا ہے

دریاؤں میں ریت اُڑے گی صحرا کی
صحرا سے گرداب گزرنے والا ہے

مولا جانے کب دیکھیں گے آنکھوں سے
جو موسم شاداب گزرنے والا ہے


ہستی امجد دیوانے کا خواب سہی
اب تو یہ بھی خواب گزرنے والا


اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دُکھ کا سورج سر پر ہو


دل ہے کہ جلتے سینے میں اک درد کا پھوڑا الہڑ سا 
نہ گپت رہے نا پھوٹ بہے کوئی مرہم ہو کوئی نشتر ہو 

ہم سانجھ سمے کی چھایا ہیں تم چڑھتی رات کے چندر ماہ
ہم جاتے ہیں تم آتے ہو پھر میل کی صورت کیونکر ہو 

اب حسن کا رتبہُ عالی ہے اب حسن سے صحرا خالی ہو
چل بستی میں بنجارہ بن چل نگری میں سوداگر ہو 

جس چیز سے تجھکو نسبت ہے جس چیز کی تجھکو چاہت ہے 
وہ سونا ہے وہ ہیرا ہے وہ ماٹی ہو یا کنکر ہو

اب انشاء جی کو بلانا کیا اب پیار کے دیپ جلانا کیا 
جب دھوپ اور چھایا ایک سے ہوں جب دن رات برابر ہو 

وہ راتیں چاند کے ساتھ گئیں وہ باتیں چاند کے ساتھ گئیں 
اب سکھ کے سپنے کیا دیکھیں جب دُکھ کا سورج سر پر ہو

نین ھیں کس کے، یاد ھے کس کی، کس کے ہیں آنسو














صحرا صحرا دوپہریں ھیں، بادل بادل شام
دل نگری کی رات اداسی، چنچل چنچل شام

ڈالی ڈالی پھول ھیں رقصاں، دریا دریا موج
تتلی تتلی نقش ھیں رنگیں، کومل کومل شام

رنگِ جنوں دل دیوانے پر دید کے پیاسے نین
تیری گلی، تیری دہلیزیں، پاگل پاگل شام

نین ھیں کس کے، یاد ھے کس کی، کس کے ہیں آنسو
کس کی آنکھوں کا تحفہ ھے، کاجل کاجل شام

رات کی رانی، اوس کا پانی، جگنو ، سرد ھوا
مُسکاتی، خوشبو مہکاتی، جنگل جنگل شام

ڈوبتا سورج، سونا رستہ، آس کے بجھتے دیپ
مایوسی کی گرد میں لپٹی اُتری پل پل شام

رنگ سنہرا، دھوپ سا اُس کا، گیسو جیسے رات
چاند سا اُجلا اُجلا چہرہ، اُس کا آنچل شام

خواب میں جب سے آیا ھے وہ، سوچوں میں گم ھوں
کیا ھو جو تعبیر بتانے آجائے کل شام

احمد کوئی نظم سُناؤ کچھ تو وقت کٹے
تنہا تنہا دل بھی ھے اور بوجھل بوجھل شام

Muhabbat


MUHABBAT OSS KI SURAT
Pyasi pankhari k hont ko sairaab karti hai 
Gulon ki aastinon men anokhay rang bharti hai
Sehar k jhatpatay men gungunati muskurati jagmagati hai
Muhabbat k dino men dasht bhi mehsoos hota hai
Kisi firdos ki surat.......................mohabbat oss ki surat

MUHABBAT ABAR KI SURAT
Dilon ki sarzamin pay ghir k aati aur barasti hai
Chaman ka zarrah zarrah jhoomta hay muskurata hai
Azal ki bay namoo matti men sabza sar uthaata hai 
Muhabat un ko bhi aabad aur shadaab karti hai 
Jo dil hian qabar ki surat...................muhabbat abar ki surat

MUHABBAT AAG KI SURAT
Bhujay seeno'n men jalti hay ,tu dil baidaar hotay hain
Mohabbat ki tappish men kuch ajab israar hotay hain
Keh ..jitna yeh bharakti hai ,uroos-e-jan mehakti hai
Dilon k saahilon pay jamma hoti aur bikharti hai 
Mohabbat jhaag ki surat..........mohabat aag ki surat

MUHABBAT KHAWAB KI SURAT
Nigahon men utarti hai kisi mahtaab ki surat
Sitaaray aarzu k is terha say jagmagatay hain
Keh pehchani nahi jati dil-e-baitaab ki surat
Mohabbat k shajar par khawab k panchi utartay hain
Tou shaakhain jaag uth'ti hain
Thakay haaray sitaray jab zamin say baat kartay hain 
Tu kab ki muntizar aankhon men........shammain jaag uth'ti hain
Muhabbat in men jalti hay chiragh-e-aab ki surat
Muhabbat aag ki surat.....muhabat khawab ki surat

MUHABBAT DARD KI SURAT
Guzishta mosamon ka ist'aaraah ban k rehti hai
Shabaan-e-hijar men roshan sitara ban k rehti hai 
Mandairon par chiraghon ki lo'yen jab thartharati hain 
Nagar men na umeedi ki hawayen sansanati hain
Gali men jab koi aahat koi saya nahi rehta
Dukhay dil k liye jab koi bhi dhoka nahi rehta 
Ghamon k bojh say jab tootnay lagtay han shaanay tau
Yeh unn pay haath rakhti hay 
Kisi hamdard ki surat
Guzar jatay hain saaray qaafilay jab dil ki basti say
Fizaa men tairti hai dair tak......
Yeh gard ki surat..............muhabbat dard ki surat ........


اُس کو دیکھا تو بھول بیٹھے سوال سارے جواب سارے


اداس دل کی ویرانیوں میں بکھر گئے ہیں خواب سارے

یہ میری بستی سے کون گزرا نکھر گئے ہیں گلاب سارے


وہ دُور تھا تو حقیقتوں پر سراب کا اک گُمان سا تھا


وہ پاس ہے تو گُمان ہے کہ حقیقیں ہیں سراب سارے


نہ جانے کتنی شکایتیں تھیں نہ جانے کتنے گِلے تھے اُن سے


اُس کو دیکھا تو بھول بیٹھے سوال سارے جواب سارے

اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے


نکل گئے ہیں خرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہلِ ہوش سے کہہ دو نہ آئیں سمجھانے

بساطِ بزم الٹ کر کہاں گیا ساقی
فضا خموش ، سُبُو چپ ، اداس پیمانے

یہ کس کے غم نے دلوں کا قرار لُوٹ لیا
یہ کس کی یاد میں سر پھوڑتے ہیں دیوانے

بھری بہار کا منظر ابھی نگاہ میں تھا
مری نگاہ کو کیا ہو گیا خدا جانے

ہے کون بر لبِ ساحل ، کہ پیشوائی کو
قدم اُٹھائے بہ اندازِ موج ، دریا نے

تمام شہر میں اک درد آشنا نہ ملا
بسائے اِس لئے اہلِ جنوں نے ویرانے

نہ اب وہ جلوہ یوسف نہ مصر کا بازار
نہ اب وہ حسن کے تیور ، نہ اب وہ دیوانے

نہ حرفِ حق ، نہ وہ منصور کی زباں ، نہ وہ دار
نہ کربلا ، نہ وہ کٹتے سروں کے نذرانے

نہ با یزید ، نہ شبلی ، نہ اب جنید کوئی
نہ اب وہ سوز ، نہ آہیں ، نہ ہاؤ ہو خانے

خیال و خواب کی صورت بکھر گیا ماضی
نہ سلسلے نہ وہ قصے نہ اب وہ افسانے

نہ قدر داں ، نہ کوئی ہم زباں ، نہ انساں دوست
فضائے شہر سے بہتر ہیں اب تو ویرانے

بدل گئے ہیں تقاضے مزاجِ وقت کے ساتھ
نہ وہ شراب ، نہ ساقی ، نہ اب وہ میخانے

تمام بند جُنوں توڑ بھی گیا ، لیکن
انا کے جال میں جکڑے ہوئے ہیں فرزانے

یہ انقلاب کہاں آسماں نے دیکھا تھا
الجھ رہے ہیں غمِ زندگی سے دیوانے

ہر ایک اپنے ہی سود و زیاں کی فکر میں ہے
کوئی تو ہو ، جو مرے دل کا درد پہچانے

ترا وجود غنیمت ہے پھر بھی اے ساقی!
کہ ہو گئے ہیں پھر آباد آج میخانے

وہی ہجوم ، وہی رونقیں ، وہی میکش
وہی نشہ ، وہی مستی ، وہی طرب خانے

جبیں کو در پہ ترے رکھ دیا یہی کہہ کر
یہ جانے اور ترا سنگِ آستاں جانے

اُٹھیں گے پی کے تری مے نواز آنکھوں سے
یہ طے کئے ہوئے بیٹھے ہیں آج دیوانے

ہے تیری ذات وہ اک شمعِ انجمن افروز
کہ جس کی لو پہ لپکتے رہیں گے پروانے


کوئی نشاط کا ساماں کوئی طرب کی سبیل
لگی ہے پھر سرِ میخانہ بدلیاں چھانے

تو بولتا ہے تو چلتی ہے نبضِ میخانہ
تو دیکھتا ہے تو کرتے ہیں رقص پروانے

یہ مستیاں نہیں جام و سُبو کے حصے میں
تیری نگاہ سے پیتے ہیں تیرے دیوانے

نصیر ! اشک تو پلکوں پہ سب نے دیکھ لیے
گزر رہی ہے جو دل پر ، وہ کوئی کیا جانے 

میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہر جائی کی



انگڑائی پر انگڑائی لیتی ہے رات جدائی کی
تم کیا سمجھو تم کیا جانو بات مری تنہائی کی

کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
میں نے آنکھ جھکی دیکھی ہے آج کسی ہر جائی کی

ٹوٹ گئے سیال نگینے، پھوٹ بہے رخساروں پر
دیکھو میرا ساتھ نہ دینا بات ہے یہ رسوائی کی

وصل کی رات نہ جانے کیوں اصرار تھا ان کو جانے پر
وقت سے پہلے ڈوب گئے تاروں نے بڑی دانائی کی

اڑتے اڑتے آس کا پنچھی دور افق میں ڈوب گیا
روتے روتے بیٹھ گئی آواز کسی سودائی کی 

ترا حُسن دستِ عیسٰی، تری یاد رُوئے مریم


جفائے غم کا چارہ ، وہ نِجات دل کا عالم
ترا حُسن دستِ عیسٰی، تری یاد رُوئے مریم

دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم
سرِ کُوئے دل فِگاراں شبِ آرزو کا عالم

تری دِید سے سِوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گِری ہے تری گیسوؤں کی شبنم

یہ عجب قیامتیں ہیں تری رہگزر میں گزراں
نہ ہُوا کہ مَر مِٹیں ہم ، نہ ہُوا کہ جی اُٹھیں ہم

لو سُنی گئی ہماری، یُوں پِھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشہِ قفس ہے، وہی فصلِ گُل کا ماتم


Wednesday, 28 November 2012

Thikana dhoondhtay hain ab kisi ujray huey dil men


Yunhi do pal sahi ghamgeen dil ko shaad kartay hain
ameer-e-shehr k aagy koi faryaad kartay hain

thikana dhoondhtay hain ab kisi ujray huey dil men
chalo aao koi veraan ghar aabad kartay hain

tumharey yeh jahan waaly humain pagal samjhtay hain
bhula detey hain khud ko hum tumhain jab yaad kartay hain

unhain fursat kahan betaab dil ka haal sun'nay ki
hamaray wastay kab waqt wo barbad kartay hain

purani baat hai toofan k rukh ko palat dena
jo dil ko phair dy aisa hunar ijaad kartay hain

yeh khamoshi sey barson in ki bunyadon me paltay hain
gharon ko nafraton k zal'zaly barbad kartay hain

tumhari goud men sir rakh k sona chahtay to hain
magar kab safar k zindan humain aazad kartay hain

وہ میرے من میں‌آ بسا کسی ملال کی طرح


نہ رنگ روپ کی طرح نہ خدوخال کی طرح
وہ میرے من میں‌آ بسا کسی ملال کی طرح

وہ میری سب ریاضتوں میں میرے ساتھ ساتھ ھے
کبھی جواب کی طرح کبھی سوال کی طرح 

کبھی کبھی تو کتنا سخت ھے مگر کبھی کبھی
تو کس قدر لطیف ھے میرے خیال کی طرح

تمہارے پیار نے کبھی مجھے رہا نہیں کیا
پڑا ہوا ہے مجھ پہ زندگی کے جال کی طرح

میں راستہ ہوں اور تمہاری یاد قافلہ ھے جو
گزر رہی ھے مجھ سے میرے ماہ و سال کی طرح


Is say pehlay keh muhabbat men mera dil tootay


itnay gehray thay meri jaan rawabat tum say torrney chahay jo hum nay to ba-mushkil tootay

jo zamaney ki nigaahon say chupa rakhay thay waqt e aakhir wo ta’aluq sar e mehfil tootay
sar kiye ma’arka e zeest barri himmat say daagh daaman pay kisi baat pey aaney na diya
tujh say izhaar e muhabbat bhi magar kar na sakay hoslay meray faqt teray muqaabil tootay
husn phoolon ka hii banta hai tabaahii ka sabab dosto khaar e mugheelan nahin nochay jatay
aap tareekh e gulistan utha kar dekhien is men bus shaakh say gull deed kay qabil tootay
meray paikar men nazakat hai gulon kii aakhir main qaid hon aahanii zanjeer mein ik muddat say
azm e parwaaz men phir bhi hai hararat itnii arsh chhuu loonga agar band e salasil tootay
koh e gham teri muhabbat ka gira hai mujh par sang-raizon men badal jana mera wajib hai
mit gaye hotay jo yaklakht to acha hota yeh qayamat hai keh hum tootay paa til-til tootay
dast basta yeh husainii kii dua hai ya raab umr bhr ashk bahaney ko na zinda rakhna
bhaij daina too meray naam pey paigham e ajal is say pehlay keh muhabbat men mera dil tootay

mujhay is haal tak pohncha dee’ya teri muhabbat nay



kitab-e-dil kaa koi bhi waraq saa’daa nahiN hota
niga’h uss ko bhi parh lay’ti hay jo likha nahiN hota
usay maiN dhekti rehti hoon yaa’don k chana’roN say
nigahoN ki tapish say wo kabhi shola nahiN hota
hawa ko choona chahti hooN keh yeh uss ko bhi chooti hai
magar mera junoo’N mujh say kabhi poora nahin hota
sunaana chahti hoon haal-e-dil jis aik jumlay meN
bikhar jata hai wo jumla kabhi yak’jaa nahiN hota
tapish is dil ki aa pohnchi meri nam-naak aankhoN tak
kaash jo jal gaya kandha wohi tera nahin hota
mujhay is haal tak pohncha dee’ya teri muhabbat nay
sitam kaisa bhi ho tujh say koi shikwaa nahin hota

اسے مجھ سے محبت نہیں تھی


اسے مجھ سے محبت نہیں تھی

پھر بھی اس نے ہمیشہ تسلیم کیا

کہ میں اس کا آنے والا وقت ھوں

لیکن

اسے یہ علم نہیں‌تھا

کہ آنے والا وقت ہمیشہ دور ہی دکھائی دیتا ھے

اور پھر اچانک ہی گزر جاتا ھے

یہ بتائے بغیر

کہ وہ گزر رھا ھے


Yeh shaam, sard hawwa or hijr ka aalam



Yeh shaam, sard hawwa or hijr ka aalam

Gumaan hota hai is baar DECEMBER MAAR DALAY GA

Halki halki si sard hawa, zara zara sa dard-e-dil


Halki halki si sard hawa, zara zara sa dard-e-dil

andaz acha ha December terey aaney ka

us mausom e wehshat ki aksar humein yaad aaii



us mausom e wehshat ki aksar humein yaad aaii 
jab ishq tamasha tha aur husn tamashaee 

is koo e malamat men pat'thar to bohat aaye 
ek wo na nazer aaya jis say thi shanasaee 

jo rounaq e mehfil thay baithay hein pas e mehfil 
aatay hein soo e mehfil kis shan say herjaee 

tadbeer k rangon say taqdeer bana lein gey 
aay kash muyasser ho eik raat ki tanhaee 

dunya men rahay Mazher aur us ko nahin dekha 
kaya faayeda aankhon ka, kis kam ki beenaee

آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا



ہم تو اسیرِ خواب تھے تعبیر جو بھی تھی
دیوار پر لکھی ہوئی تحریر جو بھی تھی

ہر فرد لاجواب تھا، ہر نقش بے مثال
مِل جُل کے اپنی قوم کی تصویر جو بھی تھی

جو سامنے ہے، سب ہے یہ،اپنے کیے کا پھل
تقدیر کی تو چھوڑئیے تقدیر جو بھی تھی

آیا اور اک نگاہ میں برباد کر گیا
ہم اہلِ انتظار کی جاگیر جو بھی تھی

قدریں جو اپنا مان تھیں، نیلام ہو گئیں
ملبے کے مول بک گئی تعمیر جو بھی تھی

طالب ہیں تیرے رحم کےعدل کے نہیں
جیسا بھی اپنا جُرم تھا، تقصیر جو بھی تھی

ہاتھوں پہ کوئی زخم نہ پیروں پہ کچھ نشاں
سوچوں میں تھی پڑی ہُوئی، زنجیر جو بھی تھی

یہ اور بات چشم نہ ہو معنی آشنا
عبرت کا ایک درس تھی تحریر جو بھی تھی

ہر دفعہ ہی اُداسی جیت گئی



حُسن کے ناز ، شب اٹھائے بہت
کھٹا ، میٹھا وہ مسکرائے بہت

ساری دُنیا سے مشورہ نہ لو
عقل والو! ہے دِل کی رائے بہت

آپ شب واقعی اکیلے تھے؟
مجھ کو کیوں رات یاد آئے بہت

صرف ’’چنگاریاں‘‘ ہی پیدا ہوئیں
گیت ، پتھر نے گنگنائے بہت

کانٹوں کی دوستی بھی گھاٹا ہے
پھول نے خود بھی ، زخم کھائے بہت

ہر دفعہ ہی اُداسی جیت گئی
تازہ پھولوں کو گھر میں لائے بہت

غالباً آنکھ کی خرابی ہے
آدمی خال خال ، سائے بہت

چڑھتے سورج کے کچھ پجاری دوست
آج کرتے ہیں ہائے ہائے بہت

عشق نہ ہونا تھا اُسے ، نہ ہُوا
شعر ، ہر رنگ کے سنائے بہت

بے وفا کا ’’اُدھار‘‘ نہ رکھا
قیس! ہم نے حسیں رُلائے بہت

Tuesday, 27 November 2012

رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر


کوئی جائے طور پہ کس لئے کہاں اب وہ خوش نظری رہی
نہ وہ ذوق دیدہ وری رہا ، نہ وہ شان جلوہ گری رہی

جو خلش ہو دل کو سکوں ملے ، جو تپش ہو سوز دروں ملے
وہ حیات اصل میں کچھ نہیں ، جو حیات غم سے بری رہی

وہ خزاں کی گرم روی بڑھی تو چمن کا روپ جھلس گیا
کوئی غنچہ سر نہ اٹھا سکا ، کوئی شاخ گل نہ ہری رہی

مجھے بس ترا ہی خیال تھا ترا روپ میرا جمال تھا
نہ کبھی نگاہ تھی حور پر ، نہ کبھی نظر میں پری رہی

ترے آستاں سے جدا ہوا تو سکونِ دل نہ مجھے ملا
مری زندگی کے نصیب میں جو رہی تو دربدری رہی

ترا حسن آنکھ کا نور ہے ، ترا لطف وجہ سرور ہے
جو ترے کرم کی نظر نہ ہو تو متاع دل نظری رہی

جو ترے خیال میں گم ہوا تو تمام وسوسے مٹ گئے
نہ جنوں کی جامہ دری رہی ، نہ خرد کی درد سری رہی

مجھے بندگی کا مزا ملا ، مجھے آگہی کا صلہ ملا
ترے آستانہ ناز پر ، جو دھری جبیں تو دھری رہی

یہ مہ و نجوم کی روشنی ترے حسن کا پرتو بدل نہیں
ترا ہجر ، شب کا سہاگ تھا ، مرے غم کی مانگ بھری رہی

رہ عشق میں جو ہوا گزر ، دل و جاں کی کچھ نہ رہی خبر
نہ کوئی رفیق نہ ہم سفر ، مرے ساتھ بے خبری رہی

ترے حاسدوں کو ملال ہے ، یہ نصیر فن کا کمال ہے
ترا قول تھا جو سند رہا ، تری بات تھی جو کھری رہی


میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں


میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں
وہی گاتی ہوئی آنکھیں وہی اندازِ کلام
وہی گُلنار تبسّم سے مہکتا چہرہ
وہی خوش رنگ خرام،
نرم لہجے میں ترنّم کی وہی گُل کاری
جیسے وہ کل کی گئی آج چلی آئی ہو
جیسے سب جاگ کے کاٹی ہوئی کالی راتیں
سرد کمرے میں ٹھٹھرتی ہوئی سوچیں، یادیں
رات بھر روئی ہوئی آنکھ سے بھیگے تکیے
اور تالو سے چمٹے ہوئے کڑوے لمحے،
میرے بہکے ہوئے خوابوں کے تراشید تھے
میں نے سوچا تھا گزرتے ہوئے کڑوے لمحے
اس کے تالو سے بھی چمٹے ہونگے !
اُس کے تکیوں پہ بھی میری یادیں
اشک بن بن کہ ٹپکتی ہونگی
سرد راتوں میں سمِ تنہائی
اس کی نیندوں کو بھی کھاتا ہوگا
اس کی آنکھوں میں مگر درد کا سایہ بھی نہ تھا

جیسے وہ گزرے ہوئے وقت سے گزری ہی نہ تھی جیسے اُس نے مجھے چاہا بھی نہ تھا

مجھ کو یوں سامنے پا کر وہ ہراساں نہ ہوئی
میرے بےربط سوالوں سے پریشاں نہ ہوئی
اپنے مانس تبسّم میں ترنم بھر کر
مجھ سے چلتے ہوئے بولی " ہیلو
شاعرِ وقت کہو، کیسے ہو "
میں اُسے دیکھ کر حیران ہوا پھرتا ہوں


Muhabbaton ka bhi mausam hai jab guzar jaye


Nahin keh nama baron ko talash kartey hain
Hum apney be-khabaron ko talash kartey hain

Muhabbaton ka bhi mausam hai jab guzar jaye
Sab apney apney gharon ko talsh kartey hain

Suna hai kal jinhain dastar-e-iftikhar mili
Woh aaj apney saron ko talash kartey hain

Yeh ishq kaya hai keh izhar-e-aarzu k liye
Hareef,noha garon ko talash kartey hain

Yeh hum jo dhoondtey phirtey rehtey hain qatal gaahon ko
Dar-asal charah'garon ko talash kartey hain

Riha honey pey ajab haal hai aseeron ka
Keh ab woh apney paron ko talash kartey hain

daad k qabil hai justaju un ki
Jo hum sey dar'badaron ko talash kartey hain

میں پھر لوٹ کے آؤں گا


جو بھی گھر سے جاتا ہے
یہ کہہ کر ہی جاتا ہے
دیکھو، مجھ کو بھول نہ جانا
میں پھر لوٹ کے آؤں گا
دل کو اچھے لگنے والے
لاکھوں تحفے لاؤں گا
نئے نئے لوگوں کی باتیں
آکر تمہیں سناؤں گا
لیکن 
آنکھیں تھک جاتی ہیں

وہ واپس نہیں آتا ہے
لوگ بہت 
ہیں اور وہ اکیلا

ان میں گم ہوجاتا ہے

کتنے سچے تھے ہم دونوں


دُھن کے پکے تھے ہم دونوں
کتنے سچے تھے ہم دونوں
سلب کیا حالات نے ہم کو
خودرُو پودے تھے ہم دونوں
مخلص مخلص ، پاگل پاگل
ایک ہی جیسے تھے ہم دونوں
مل جاتے تو پُورے ہوتے
آدھے آدھے تھے ہم دونوں
لوگ بڑے ہی عیار تھے
بھولے بھالے تھے ہم دونوں

iltafaat samajhuuN yaa beruKhii kahuuN is ko


Khatm-e-shor-e-tuufaaN thaa duur thii siyaahii bhii

dam k dam men afasaanaa thii merii tabaahii bhii
iltafaat samajhuuN yaa beruKhii kahuuN is ko


rah gaii Khalish ban kar uskii kamanigaahii bhii
yaad kar vo din jis din terii saKhtgiirii par


ashk bhar k uThii thii merii begunaahii bhii
shama bhii ujaalaa bhii main hii apanii mehfil kaa


main hii apanii manzil kaa raahbar bhii raahii bhii
gumbadon sey palaTii hai apanii hii sadaa "Majrooh"


masjidon men kii jaa k main ney daadKhvaahii bhii