ابھی شادابیوں نے صبح کا آنگن نہیں دیکھا
ابھی دیوارودر سے خوف کے سائے نہیں سمٹے
ابھی حیلہ فروشی مکتبِ خواہش میں ٹھہری ہے
ابھی بھولی نہیں وہ داستاں جو ہم پہ گزری ہے
ابھی موسم نہیں بدلا
زباں بندی کے صحرا سے نکل تو آئے ہو لیکن
سخن کے شعلئہِ تائید کو ارزاں نہیں کرتے
نئے موسم کو حرفِ شوق کا عنوان نہیں کرتے
وہ موسم
جس میں تازہ کونپلیں ڈر کے نکلتی ہیں
ہر اک گھر اور ہر دہلیز پر پہرہ خزاں کا تھا
دعا کے بادباں پہ نام بھی نامِ گماں کا تھا
وہ موسم جس میں عفریتِ ہزیمت راج کرتا تھا
وہ کیا آسیب تھا جو اپنی گلیوں سے گزرتا تھا
کہ اب دیوار و در سے خوف کے سائے سمیٹے جائیں
کہ اب شادابیاں ٹھہریں
کہ اب موسم بدل جائے
No comments:
Post a Comment