سرراہ اُن سے ہاتھ جو ملایا تھا
وفا بھی شرط تھی یہ کہاں بتایا تھا
ہو کیسے علم اُسے لذت جنوں جس نے
ہنسی مذاق کیا دل نہیں لگایا تھا
جو چھوڑنا تھا تو آس کیوں جگائی تھی
میں سنگ میل تھا کیوں ہمسفر بنایا تھا
یہ کیا خبر تھی کہ ساحل پہ جان جائے گی
جسے مسافر بھنور سے بچا کے لایا تھا
تمہارے بعد میں جیسے کوئی تماشا تھا
کہ سارا شہر مجھے دیکھنے کو آیا تھا
وہ برہمن تھا مجھے بولا کٹا دو ہاتھ اپنے
یا یہ کہو کہ مجھے ہاتھ کیوں دکھایا تھا
میں دل کے زخم گنوں یا گنوں کرم تیرے
سفر تھا رات کا ساتھی نہ کوئی سایہ تھا
میں اُس سے گھر نہ لٹاتا تو اور کیا کرتا
غنیم اب کے مسیحا جو بن کے آیا تھا
No comments:
Post a Comment