اب شوقِ سفر، خواہشِ یکجائی بہت ہے
دشمن ہی ملے ، راہ میں تنہائی بہت ہے
ہم کون سے غالب تھے کہ شہرت ہمیں ملتی
دنیا ، تری اتنی بھی پذیرائی بہت ہے
زخموں کی نمائش کا سلیقہ نہیں ہم کو
وہ ہیں کہ انہیں شوقِ مسیحائی بہت ہے
لوگوں سے تعارف نہ کوئی جان نہ پہچان
دل ہے کہ اسی بزم کا شیدائی بہت ہے
گلیوں میں مگر کوئی دریچہ نہیں کھلتا
آپس میں یہاں شورِ شناسائی بہت ہے
شامیں ہیں بہت سوختہ ، برسات میں ساجد
کہنے کو بھرا شہر ہے ، تنہائی بہت ہے
No comments:
Post a Comment