قلب مضطرب ٹھہر لمحہ بھر کے لئے
اس کی رخصت کا ہنگم درپیش ہے
وصل شیریں سے گل رنگ ماحول میں
ایک کہانی کو انجام درپیش ہے
آخری بار جی بھر کے میں دیکھ لوں
کیا خبر پھر کبھی ہم ملیں نہ ملیں
شاخ فرداثمر بار ہو کہ نہ ہو
کس کو معلوم پھر گل کھلیں نہ کھلیں
ایسی ساعت کہاں ایسا منظر کہاں
رنگ ہی رنگ ہے روپ ہی روپ ہے
چھاؤں آنچل کی لے لوں گھڑی دو گھڑی
پھر سفر در سفر دھوپ ہی دھوپ ہے
No comments:
Post a Comment