Pages

نجانے کون سی رُت میں بھچڑ گئے وہ لوگ


گُریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے
کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے

تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو
وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے


ہمیں بھی گھیر لیا گھر زعم نے تو کھُلا
کُچھ اور لوگ بھی اِ س میں قیام رکھتے تھے

یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی
ہُوا تھی ساتھ تو خُوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رُت میں بھچڑ گئے وہ لوگ
جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے

وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر
دئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے

میں بھی کتنا پاگل ہوں ناں…!


جب بھی رات کو گھر آتا ہوں
اپنے دروازے پہ دستک دیتے لمحے
اکثر میری سوچ یہ مجھ سے کہتی ہے
آج تو دروازہ کھولے گی
مجھ کو دیکھ کے مسکائے گی
میر اماتھا چومے گی
شرمائے گی

گھر میں داخل ہو کر میں بھی کوئی شرارت کردوں گا
تو خود میں سمٹ کر رہ جائے گی
میں بھی کتنا پاگل ہوں ناں
کیا کیا سوچا کرتا ہوں
میں بھی کتنا پاگل ہوں ناں…!!

یاد


شب کے پچھلے پہر تک
میں لیتا رہا ہچکیاں
اور پھر سو گئے تُم

تمہارے لیے ایک نظم


دیکھیں جانو آپ اس بار
جلدی جلدی خط لکھئے گا
ورنہ… ورنہ…!
ورنہ میں کیا کر سکتی ہوں؟
رُولوں گی بس…!
اب سے کتنے موسم پیچھے
مَیں اس کے خط پر رویا تھا
شاید پورا ہفتہ میری آنکھ میں لالی رچی رہی تھی
اور اب اتنے برسوں بعد
آج پرانے درد کھنگالے

پچھلے کتنے گھنٹوں سے
اپنی اُس نادانی پر میں
رہ رہ کر ہنس پڑتا ہوں
لیکن دُور کہیں آنکھوں مَیں
انجانا سا آنسو اب بھی
اُٹھتا ہے اور دَب جاتا ہے
چُھپ جاتا ہے
جیسے کتنے موسم پیچھے
شاید پورا ہفتہ میری آنکھ میں لالی رچی رہی تھی

میرے سورج…!


میرے سورج…!
تِری زمین ہوں میں
کوئی موسم ہو تیرے گِرد مجھے
گُھومنا ہے
مِرا تو کام ہی تیرا طواف کرنا ہے…

شک


موبائل کی بیل بجتی ہے
اور تم جاناں…!
گھر ے اُس کونے میں، جس میں
سب سے بڑھ کر
سب سے واضح
signals فون پر آتے ہیں
اُس کونے میں کھڑے ہوئے بھی
کیوں کہتے ہو
’’صاف نہیں ہے کچھ آواز‘‘
پھر باہر یا چھت پر جا کر
گھنٹوں گھنٹوں
کس سے باتیں کرتے ہو… تم
کون ہے وہ……؟

مجھے اُس سے محبت ہے مگر کیسے کہوں اُس سے


مجھے اُس سے محبت ہے
مگر کیسے کہوں اُس سے
وہ میری بات کوسنجیدگی سے
کم ہی لیتی ہے
ہر اِک پَل مسکرانا
کھلکھلانا
دوستوں پر فقرے کَسنا
نِت نئے معصوم منصوبے بنانا
شوخ چنچل ہر گھڑی تازہ شرارت میں بہت مصروف رہتی ہے
مگر اک اور خدشہ بھی ہے جو مجھ کو
مِرے اظہار سے اقرار سے خود روکے رکھتا ہے
کہ مہکے خواب بُننے کھیلنے کا وقت ہے اُس کا
مِری چاہت
کہیں معصومیت نہ چھین لے اُس کی
سدا سے ہم نے دیکھا ہے
محبت آدمی کو اس قدر سنجیدہ کرتی ہے
کہ پھر محفل، تماشے، کھیل اُس کو بوجھ لگتے ہیں
میں ڈرتا ہوں
کہیں یہ بھولپن اُس کا
یہ ہر پل، چہچہانا، مُسکرانا سب
مِرے اظہارسے سنجیدگی میں نابدل جائے
کہیں اُس شوخ کو بھی روگ کوئی، چپ نہ لگ جائے
مجھے اُس سے محبت ہے
مگر
کیسے کہوں اُس سے

کیسے کوئی ہم کو جُدا اب کر پائے گا


ننگے پائوں سفر کیا اور
بیت اللہ کو سامنے پا کر
حاضر ناظر جان کے رب کو
حجِرا سود چھو کر میں نے
اپنی اُنگلی کی پوروں سے
کعبے کی دیوار پہ جاناں…!
رب کے نام، وفائوں کا پیغام لکھا ہے
اپنا تیرا نام لکھا ہے
کیسے کوئی ہم کو جُدا اب کر پائے گا
دردِ جدائی اپنی موت ہی مر جائے گا

وہ جو ہم تم میں تھا، اِک ’’ہم‘‘ مجھے واپس کر دو


روشنی اور بہاریں تمہی رکھ لو جاناں
میرے جگنو مِرے موسم مجھے واپس کر دو

میری حسرت مِری محرومیاں لوٹا دو مجھے
میرے آنسو مِرے ماتم مجھے واپس کر دو

جانے والے سے بس اتنا ہی کہا تھا میں نے
کچھ نہ لوٹائو میرے غم مجھے واپس کر دو

کیوں یہ تکرار سی ہونے لگی ’’میں‘‘ کی جاناں
وہ جو ہم تم میں تھا، اِک ’’ہم‘‘ مجھے واپس کر دو

جتنی خوشیاں ہیں وہ رکھ لو مری جانب سے وصی
میری آنکھوں میں چُھپے نم مجھے واپس کر دو

عشق زندہ رہے گا میرے بعد


تم وہاں ہو، یہاں نہیں ہو تم
غم ہی غم ہیں جہاں نہیں ہو تم

اَب کِسی اور سمت دیکھتا ہوں
اَب مِرا آسماں نہیں ہو تم

عشق زندہ رہے گا میرے بعد
ہاں مگر جاوداں نہیں ہو تم

یہ زمیں، آسماں، ہمارا دل
ہَر جگہ ہو، کہاں ہو تم

تم کَڑی دھوپ کا سفر نہ سہی
ہاں مگر سائباں نہیں ہو تم

میری یادیں تمہارے سَر پر ہیں
جان من! بے اَماں نہیں ہو تم

کس لیے آپ آپ کرتے ہو
مُجھ سے گَر بدگماں نہیں ہو تم

منتظر


جتنے اُجلے رنگ جہاں میں بستے ہیں
سب تم پر اچھے لگتے ہیں
جو پہنو جو اوڑھو
تم پر سجتا ہے
جانتی ہو تم
رنگ بہت بے چین رہا کرتے ہیں
کب تم
اوڑھ کے اِن کو
نرم ہوا کے ایوانوں کی
سیر کرو گی
چُھو کر جاناں…!
اِن رنگوں کو جیون دو گی
اپنے حُسن کا ساون دو گی

ہائے وہ لمحہ کہ جب تجھ سے شناسائی ہوئی


ہائے وہ لمحہ کہ جب تجھ سے شناسائی ہوئی
پھر جو ہونی تھی مِری جان وہ رسوائی ہوئی

اپنی ناکام محبت کا نہ یوں چرچا کرو
زخم بڑھ جائے گا گر اس کی پذیرائی ہوئی

پھر زمانے میںکسی نے اُسے دیکھا نہ سُنا
تیرے دربار میں جس شخص کی شنوائی ہوئی

جب تِری یاد کو کوئی بھی ٹھکانا نہ ملے
میری بانہوں میں چلی آتی ہے گھبرائی ہوئی

عجیب شے ہے محبت بھی


میں خوش نصیبی ہوں تیری مجھے بھی راس ہے تُو
تِرا لباس ہوں میں اور مِرا لباس ہے تُو

عجیب شے ہے محبت بھی، دور ہیں لیکن
تِرے قریب ہوں میں، میرے آس پاس ہے تُو

کیا ہے خود کو فراموش میں نے تیرے لیے
بہت ہی عام ہے دنیا، بہت ہی خاص ہے تُو

زمانہ ہم کو جُدا کر سکے، نہیں ممکن
محبتوں میں جو ناخن ہوں میں تو ماس ہے تُو

یہ ریت سی مِرے ہونٹوں پہ جم گئی کیسی
مجھے گُماں تھا کہ دریا ہوں میں تو پیاس ہے تُو

یہ کون تیرے مِرے درمیان ہے جاناں
کہ میں بھی درد میں ہوں اور محوِ یاس ہے تُو

Reminder


تم نے کہا تھا
پہلی بارش کے پڑتے ہی
لوٹ آئو گے…!
ہم اور تم مل کر بھیگیں گے
دیکھو جاناں …!
کتنی پھواریں بیت چکی ہیں
ساون پھر سے لوٹ آیا ہے
برسوں پہلے کیا تھا تم نے
مجھ سے عہد
بنھا جائوناں
جاناں! لوٹ کے آجائو ناں

اَب تو لوٹ کے آجائو ناں…!

Log kehtay hain meray dil pay tera saaya hai



Is liye koi zayada nhi rukta hai yahaan
Log kehtay hain meray dil pay tera saaya hai

اِس لیے کوئی زیادہ نہیں رُکتا ہے یہاں
لوگ کہتے ہیں مرے دِل پہ ترا سایہ ہے

بہلاوا

رِشتہ توڑ کے جانے والے
مجھ کو چھوڑ کے جانے والے
اَب کی عید پہ
مجھ کو جتنے کارڈ ملے ہیں
اُن کارڈوںمیں
سب سے پیارا
سب سے اچھا

پہلا کارڈ تمھارا ہے
مجھ کو چھوڑ کے جانے والے
ذراکہو تو
یہ کس اور اشارہ ہے…؟

22جون


میرے مولا !
آج ذرا اس تپتے دن کو
ٹھنڈا کر دے
چھوٹا کردے
اِ سے گھٹا دے
بادل کے ٹکڑے سے کہہ کر
بارش کردے
بوندیں آئیں
پَون چلے

اور سورج گزرے جلدی سے
مغرب آجائے
میرے مالک!
آج بھی اس نے
میر ی خاطر
مجھ کو پانے کی چاہت میں
تیرا روزہ رکھا ہے…

سانجھ


پہلی بار جب اُس نے میری ماں کو امی جان کہا تو
مجھ کو یوں محسو س ہوا تھا
اپنا سب کچھ چھوڑ کے جیسے
اِک لمحے میں
میرا سب کچھ اس نے اپنا مان لیا ہے
مجھ کو سب کچھ جان لیا ہے

مری محبت کا پہلا اور آخری اثاثہ


تمھیں تو شاید خبر نہیں ہے
مِرے بدن میں تمھارے چھونے سے
سنسناہٹ سی جاگتی تھی
وہ جم گئی ہے
تمھاری آواز میری رگ رگ میں
تھم گئی ہے
تمھیں تو شاید خبر نہیں ہے
مگر تمھاری حسین پوروں
کی دسترس میں جو ہونٹ تھے

اُن گلابی ہونٹوں کی سلوٹیں
خشک ہوگئی ہیں
تمھیں تو شاید خبر نہیں ہے
کہ چاند راتوں میں
لائبریری کی سیڑھیوں کے اُداس گوشے میں
تم نے مجھ کو بہت مقدس قرار دے کر
کہا تھا
’’تم میری زندگی ہو ‘‘
تمھیں تو شاید خبر نہیں ہے
وہ لفظ اب بھی وہیں کہیں ہیں
تمھیں تو شاید خبر نہیں ہے
کہ آخری روز جاتے جاتے
مری اجازت سے میرے ماتھے پہ
ایک بوسہ سجا گئے تھے
مری محبت کا پہلا اور آخری اثاثہ

اُداس کیمپس کی نہرپر بے پناہ تقدس
لیے وہ بوسہ وہیں پڑا ہے
تم اپنے گھر کو چلے گئے ہو
مَیں اور کی دسترس میں ہوں اب
مرے تمھارے خیال، سوچیں، مزاج تک تو بدل گئے ہیں
مگر کبھی تم اُدھر سے گزرو
تو آج بھی تم کو دھیرے دھیرے
وہ بوسہ روتا سنائی دے گا
مری محبت کا پہلا اور آخری اثاثہ
مگر تمھیں تو خبر نہیں ہے
مگر تمھیں تو خبر نہیں ہے…

Wednesday, 26 June 2013

درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں


اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو
درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں
چار سو گونجتی رسوائی کسے کہتے ہیں

اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو
کوئی لمحہ ہو تِری یاد میں کھو جاتے ہیں
اب تو خود کو بھی میسر نہیں آپاتے ہیں
رات ہو دن ہو ترے پیار میںہم بہتے ہیں

درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں
اَب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو

جو بھی غم آئے اُسے دل پہ سہا کرتے تھے
ایک وہ وقت تھا ہم مل کے رہا کرتے تھے
اب اکیلے ہی زمانے کے ستم سہتے ہیں

درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں
اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو
ہم نے خوداپنے ہی رستے میں بچھائے کانٹے
گھر میں پھولوں کی جگہ لاکے سجائے کانٹے
زخم اس دِل میں بسائے ہوئے خود رہتے ہیں

درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسی کہتے ہیں
اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو
یوں تو دنیا کی ہر اک چیزحسیں ہوتی ہے
پیار سے بڑھ کے مگر کچھ بھی نہیں ہوتی ہے
راستہ روک کے ہر اک سے یہی کہتے ہیں

اب جو بچھڑے ہیں تو احساس ہوا ہے ہم کو
درد کیا ہوتا ہے تنہائی کسے کہتے ہیں
چار سو گونجتی رسوائی کسے کہتے ہیں
اب جو بچھڑے ہیں تو……….

Request


ابھی کچھ بھی نہیں بدلا
درختوں پر وہی موسم ابھی تک مسکراتے ہیں
ابھی تک سرمئی شامیں ہمارے ساتھ روتی ہیں
ابھی تک میرے ہونٹوں پر تمھارے احمریں ہونٹوں کی خوشبو
رقص کرتی ہے
ابھی تک میری آنکھوں میں تمھارے خواب ہنستے ہیں
ابھی تک میرے ہاتھوں پر تمھاری اُنگلیوں کی نرم پوروں سے لکھے
سب حرف زندہ ہیں
ابھی تک میرے سینے میں تمھاری سانس چلتی ہے

ابھی تو راستوں پردودھیا پیروں سے پڑنے والے
سارے نقش قائم ہیں
ابھی الماریوں میں سارے تحفے گنگناتے ہیں
تمھارے خط ابھی بھی رات کی تنہائی میں مجھ سے

تمھاری بات کرتے ہیں
بہت سے سال گزرے ہیں… بہت سا وقت بیتا ہے
مری چاہت نہیں بیتی… میری ہمت نہیں گزری
ابھی کچھ بھی نہیں بدلا… ابھی کچھ بھی نہیں بدلا
اگر چاہو… اگر سمجھو… مری مانو…
تو لوٹ آئو…

Bain karti hui aankhen yeh pareshaan zulfain



Bain karti hui aankhen yeh pareshaan zulfain
Aur kaya chaahtay ho us say muhabbat kar kay

بین کرتی ہوئی آنکھیں یہ پریشاں زُلفیں
اور کیا چاہتے ہو اُس سے محبت کر کے

اب بھی اس کے خط آتے ہیں


اب بھی اس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
موسم، خوشبو ،گھر والوں کی باتیں کر کے، اپنے دل کا حال
سبھائو سے لکھتی ہے
اب بھی اُس کے سب لفظوں سے کچے جذبے پھوٹ آتے ہیں
اب بھی اُس کے خط میں موسم گیت سنانے لگ جاتے ہیں
اب بھی دُھوپ نکل آتی ہے بادل چھا نے لگ جاتے ہیں
اب بھی اُس کے جسم کی خوشبو ہاتھوں سے ہو کر لفظوں تک
اور پھر مجھ تک آجاتی ہے

اب بھی اس کے خط میں اکثر چاند اُبھرنے لگ جاتا ہے
شام اُترے تو ان لفظوں میں سورج ڈوبنے لگ جاتا ہے

اب بھی اُس کے خط پڑھ کر کچھ مجھ میں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
اب بھی خط کے اِک کونے میں وہ اِک دِیپ جلا دیتی ہے
اب بھی میرے نام پہ اپنے اُجلے ہونٹ بنا دیتی ہے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں…

Achaanak


Aaj main jab yunhi

Achanak

Bin chaahay be'khabar

Chaltay chaltay usi gali men aa gya

Keh jahan pehli bar

Main ney thumhen dekha tha

Aur phir

Us gali men pehli bar

Tum sey iqrar-e-wafa kia tha

To mera dil ajab be'qrari sey dharka

Yuun laga keh tum

Aachanak he kisi goshay sey

Sab ranjishen bhula kar

Mujhay thaam lo gi

Monday, 24 June 2013

اجنبی محبت صرف ایک بار دستک دیتی ہے


بڑی مدت کے بعد تیری گلی سے میرا گزر ہوا
کچھ بھولے وعدے کچھ پرانی باتیں یاد آگئيں

جو بند ہونٹوں اور بولتی آنکھوں سے تم نے کیں
پھر سے تمھاری ان کہی وہ حکائتیں یاد آگئيں

نماز کے بعد میرے لیئے اُٹھے تمھارے ہاتھ
وہ گزرے دن اور وہ مقدس ساعتیں یاد آگئيں

میں خوداری کے ہاتھوں ہر بازی ہار چکا تو
تمھاری روتی آنکھوں کی وہ شکائتیں یاد آگئیں

گیلے بالوں سے ٹپکتا پانی آنکھ سے گرتے آنسو
تم نے رو کے جو گزاريں وہ برساتیں یاد آگئيں

اجنبی محبت صرف ایک بار دستک دیتی ہے
تم نے رو کے جو کیں وہ وضاحتیں یاد آگئيں

بڑی مدت کے بعد تیری گلی سے میرا گزر ہوا
کچھ بھولے وعدے کچھ پرانی باتیں یاد آگئيں

ہجر کی سخت سرد راتوں میں


آخری خط نہ پڑھ سکا میں بھی
آس کیا دیتا رو دیا میں بھی

صرف سننے کی تاب تھی شاید
وہ بھی خاموش ، چپ رہا میں بھی

ہجر کی سخت سرد راتوں میں
وہ بھی جلتا رہا ، جلا میں بھی

آج وہ ’’آپ‘‘ پر ہی ٹھہرا رہا
فاصلہ رکھ کے ہی ملا میں بھی

اوڑھ لی اُس نے چہرے پر رونق
سامنے سب کے خوش رہا میں بھی

غلطی سے آنکھیں چار ہوتے ہی
سخت محتاط تر ہوا میں بھی

وہ بھی اُلٹی کتاب پڑھنے لگا
.کل کے اخبار میں چھُپا میں بھی

اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے


وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی
اُس کو سوچا ہی نہیں جس سے مُحبت نہیں کی


اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے
ہم نے پہلے بھی مُحبت میں سیاست نہیں کی


تُم سے کیا وعدہ خلافی کی شکایت کرتے
تُم نے تو لوٹ کے آنے کی بھی زحمت نہیں کی


دھڑکنیں سینے سے آنکھوں میں سِمٹ آئی تھیں
وہ بھی خاموش تھا، ہم نے بھی وضاحت نہیں کی


گردِ آئینہ ہٹائی ہے کہ سچائی کھلے
ورنہ تم جانتے ہو ہم نے بغاوت نہیں کی


بس ہمیں عشق کی آشفتہ سری کھینچتی ہے
رزق کے واسطے ہم نے کبھی ہجرت نہیں کی


آ، ذرا دیکھ لیں دنیا کو بھی، کس حال میں ہے
کئی دن ہو گئے دُشمن کی زیارت نہیں کی


تم نے سب کُچھ کیا، انسان کی عزت نہیں کی
کیا ہوا وقت نے جو تم سے رعایت نہیں کی

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں


یہ  بستیاں  ہیں  کہ  مقتل  دعا کیے جائیں
دعا  کے  دن  ہیں  مسلسل  دعا  کیے  جائیں

کوئی  فغاں، کوئی نالہ، کوئی بکا، کوئی بین
کھلے    گا    باب   مقتل   دعا   کیے   جائیں

یہ    اضطراب   یہ   لمبا   سفر،   یہ   تنہائی
یہ   رات   اور  یہ  جنگل  دعا  کیے  جائیں

بحال  ہو  کے  رہے  گی  فضائے  خطۂ خیر
یہ   حبس   ہوگا   معطل   دعا   کئے  جائیں

گزشتگان   ِ   محبت  کے  خواب  کی  سوگند
وہ   خواب   ہوگا   مکمل   دعا   کیے   جائیں

ہوائے  سرکش  و  سفاک کے مقابل بھی
یہ دل بجھیں گے نہ مشعل دعا کیے جائیں

غبار    اڑاتی    جھلستی    ہوئی    زمینوں   پر
امنڈ  کے  آئیں  گے بادل دعا کیے جائیں

قبول   ہونا   مقدر   ہے  حرف  خالص  کا
ہر  ایک  آن  ہر  اک  پل دعا کیے جائیں

Friday, 21 June 2013

ورنہ ایسا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔!!


جس اذیت سے دل گزرتا ھے
سوچتی ھوں وہ شخص نہ گذرے
اسکو ھر درد سے بچا لوں میں
اپنے دل میں کہیں چھپا لوں میں
ورنہ چپ میں بلا کی وحشت ھے
خامشی ۔۔۔۔۔درد ھے اذیت ھے
خامشی دل پہ وار کرتی ھے
روح۔۔۔۔۔ کو تار تار کرتی ھے
دل میں چپ دکھ چھپائے پھرتی ھوں
خود سے نظریں چرائے پھرتی ھوں
ایسے ھی دن سے رات کرتی ھوں
خود سے کب کوئی بات کرتی ھوں
پر کبھی جب وہ چپ پہنتا ھے
ٹوٹ جاتی ھوں بات کرتی ھوں
ورنہ ایسا ھے روز جیتی ھوں
!!!!!!!ورنہ ایسا ھے روز مرتی ھوں

woh shakhs meray dil say utar kyun nhi jata


lamhaati ta'aluq hai to mar kyun nhi jata
woh shakhs meray dil say utar kyun nhi jata

kyun thehar gaya hai yuun meray dil ki zameen par
hai dard bhi mausom to guzar kyun nhi jata

لمحاتی تعلق ھے تو مَر کیوں نہیں جاتا
وہ شخص مِرے دِل سے اُتر کیوں نہیں جاتا

کیوں ٹھہر گیا ھے یُوں مِرے دِل کی زمیں پر
ھے دَرد بھی موسم تو گُزر کیوں نہیں جاتا



Dard ki zid hai duniya ko khabar ho jaaye



Zabt kehta hai khamoshi men basar ho jaaye

Dard ki zid hai duniya ko khabar ho jaaye


ضبط کہتا ھے خاموشی میں بسر ھو جاۓ

درد کی ضد ھے دنیا کو خبر ھو جاۓ