میں نے آنکھوں میں سمندر کا نشاں رکھا ہے
دل میں طوفان کے آنے کا گماں رکھا ہے

تم سے کیا، خود سے بھی اظہار نہیں اب ممکن
کتنا معصوم محبت کا جہاں رکھا ہے!

کون اب تم کو جفا خو کہے جاناں ! تم نے
دشت میں جاکے وفاؤں کا نشاں رکھا ہے

تم اجالوں کے ہو راہی تو کہیں اور بسو!
میری آنکھوں میں تو مدت سے دھواں رکھا ہے

!مانا میں آپ کے قابل تو نہیں ہوں صاحب
اب کسی اور کے قابل بھی کہاں رکھا ہے