Pages

Monday, 30 September 2013

مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی


خوشی کی بات ہو یا دکھ کا منظر دیکھ سکتی ہوں 
تیری آواز کا چہرہ میں چھو کر دیکھ سکتی ہوں 

ابھی تیرے لبوں پہ ذکرِ فصلِ گل نہیں آیا 
مگر اِک پھول کھلتا اپنے اندر دیکھ سکتی ہوں 

مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی 
میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں 

کنارہ ڈھونڈنے کی چاہ تک مجھ میں نہیں ہو گی 
میں اپنے گرد اک ایسا سمندر دیکھ سکتی ہوں 

خیال آتا ہے آدھی رات کو جب بھی تیرا دل میں 
اُترتا ا ک صحیفہ اپنے اوپر دیکھ سکتی ہوں 

وصال و ہجر اب یکساں ہیں ، وہ منزل ہے الفت میں 
میں آنکھیں بند کرکے تجھکو اکثر دیکھ سکتی ہوں 

ابھی تیرے سوا دنیا بھی ہے موجود اس دل میں 
میں خود کو کسطرح تیرے برابر دیکھ سکتی ہوں

جل کر تیرے فراق میں جب راکھ ہو گئے


شہرِ جمال کے خس و خاشاک ہو گئے
 اب آئے ہو جب آگ سے ہم خاک ہو گئے

 ہم سے فروغِ خاک نہ زیبائی آب کی
 کائی کی طرح تہمتِ پوشاک ہو گئے

 پیراہنِ صبا تو کسی طور سِل گیا
 دامانِ صد بہار مگر چاک ہو گئے

 اے ابرِ خاص! ہم پہ برسنے کا اب خیال
 جل کر تیرے فراق میں جب راکھ ہو گئے

 قائم تھے اپنے عہد پہ یہ دیدہ ہائے غم
 کیا یاد آ گیا ہے کہ نمناک ہو گئے

 اَب تک جنوں ہی اپنا اثاثہ رہا مگر
 تُجھ سے ملے تو صاحبِ ادراک ہو گئے

 خوشبو تو بن نہ پائے سو کچھ ہم سے بے ہنر
 اے موجۂ صبا ترے پیچاک ہو گئے

Hichkiyan Leta raha Naala-e-Shab geer mera


Hichkiyan Leta raha Naala-e-Shab geer mera
Aah dam torr gaii seeny men zara pehlay
Zindagi moat ki baahon men chupi jati hai
Grift-e-saans bhi Laagher si huii jati hai
Chiragh bujh gaey, bas jalta dhuwan baqi hai
Aab aaey ho!

Keh barfaab badan men kisi umeed ki
ik zara si garmi bhi kahin baqi nahi
Abb aaye ho keh khail khatm hua chahta hai .... !
Abb aaye ho keh shab-e-intezar beet chali ..... !
Abb aaye ho!
Keh jab .... Kho jana mera Lazim Tehra

Yeh dukh dil say nhi tal'tay


Yeh dukh dil say nhi tal'tay
Keh us nay haath chhora to
Mujhay rastay nhi miltay

Mera ik khawab us nay aisa torra
Aankh heraan hai
Meray sab khawab yuun sehmay
Keh ab hanstay nhi miltay

Meray jugnu teri khushbu
Mujhay ab kyun nhi milti
Hawa kay narm daaman men
Teray lehjay nhi miltay

Teri in talkh baaton par
Luta doon kyun mein yeh aansu
Yeh heeray dil men paltay hain
Kabhi sastay nhi miltay

Mein shajar e dil ko apnay
Aansuon say sabz rakhti hoon
Yeh dil ki shaakh say poocho
Keh gul ab kyun nhi miltay

Mein kab tak apni aankhon ko
Lahu say bheegtay dekhoon
Maseeha kyun nhi aatay
Zakhm mujh say bhi siltay

Yeh duk dil say nhi tal'tay

Sunday, 29 September 2013

خواہش


اے میرے ہم نشـیں!۔

کبھی ایسا بھی ہو

کہ یہ جسم و جاں

تیرے اپنے ہی ہوں

مگر

جب تُو دیکھے کوئی آئینہ

تو چہرہ میرا

ہو ترے روبرو

تُو کرے گفتگو

گفتگو تُو کرے اور ایسے کرے

کہ سُننے والے کرنے لگیں یہ گماں

کہ تُو تجھ میں نہیں ہے

بـــس

میں ہوں وہاں۔ ۔ ۔

Saturday, 28 September 2013

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے


جو اتر کر زینہ شام سے تیری چشم خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے سے مہر و ماہ مرے بام و در کو سجا گئے

یہ عجیب کھل ہے عشق کا میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ مرے گماں میں تھے وو تیری زبان پر آ گے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی داستان جسے تم ہنسی میں اڑا گے

وہ چراغ جاں کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیری بیوفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھا گۓ

وہ تھا چاند چشم وصال کا کہ روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہا گۓ

یہ جو بندگان نیاز ہے یہ تمام ہیں وہ لشکری
جنھیں زندگی نے اماں نہ دی تو تیرے حضور میں آ گۓ

تیری بےرخی کے دیار میں میں ہوا کے ساتھ ہوا ہوا
تیرے آئینے کی تلاش میں میرے خواب چہرہ گنوا گۓ

تیرے وسوسوں کے فشار میں تیرا شرر رنگ اجڑ گیا
میرے خواہشوں کے غبار میں میرے ماہ و سال وفا گۓ

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
میرے دشت خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گۓ

میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
تیرے پاس جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آ گۓ

Karb e tanhai men jeeney ki dua do mujh ko



Meri chahat ki bohat lambi saza do mujh ko
Karb e tanhai men jeeney ki dua do mujh ko

Khud ko rakh kay mein kahin bhool gayi hoon shayed
Tum meri zaat sey aik bar mila do mujh ko

Mujh ko bhi garchay chehra shanaasi ka zoam tha



Mujh ko bhi garchay
chehra shanaasi ka zoam tha

mushkil yeh aa parri keh
adakaar woh bhi tha

مجھ کو بھی گرچہ
چہرہ شناسی کا زعم تھا

مشکل یہ آ پڑی کہ
اداکار وہ بھی تھا

Friday, 27 September 2013

تلاشِ یار میں نکلے تھے جاں سے ہار گئے


سوال ایک تھا، لیکن مِلے جواب بہت
پڑھی ہے میں نے محبت کی یہ کتاب بہت

گئی بہار تو پھر کون حال پوچھے گا
کرو نہ چاہنے والوں سے اِجتناب بہت

یہ آسمان و زمیں سب تمہیں مبارک ہوں
مرے لئے ہے یہ ٹُوٹا ہوا رباب بہت

یہاں پہ دیکھو ذرا اِحتیاط سے رہنا
مِلے ہیں پہلے بھی اس خاک میں گُلاب بہت

میں جانتا ہوں انہیں، وقت کے حواری ہیں
جو لوگ خُود کو سمجھتے ہیں کامیاب بہت

رہِ جنوں میں اکیلا نہیں میں خوار و زبُوں
مری طرح سے ہوئے ہیں یہاں خراب بہت

کسی نے کاسۂ سائل میں کچھ نہیں ڈالا
سمندروں سے میں کرتا رہا خطاب بہت

کُھلی ہوئی ہیں دُکانیں کئی نگاہوں کی
طلب ہو دل میں تو پینے کو ہے شراب بہت

خدا کرے وہ مرا آفتاب آ نکلے
دلوں میں آگ لگاتا ہے ماہتاب بہت

سُنا کے قصّہ تمہیں کس لئے اُداس کریں
کہ ہم پہ ٹُوٹے ہیں اس طرح کے عذاب بہت

تلاشِ یار میں نکلے تھے جاں سے ہار گئے
خبر نہ تھی کہ وہ ظالم ہے دیریاب بہت

کبھی وہ بُھول کے بھی اس طرف نہیں آیا
اگرچہ آتے ہیں آنکھوں میں اُس کے خواب بہت

اسی لئے ترے کُوچہ میں اب وہ بِھیڑ نہیں
کہ لُطف کم ہے تری آنکھ، میں عتاب بہت

یہاں رہے گا ترے اِقتدار کو خطرہ
کہ آتے رہتے ہیں اس دل میں اِنقلاب بہت

کسی کو بھیج کے احوال تو کیا معلوم
مرے لئے تو یہی لُطف ہے جناب بہت

تلاشِ یار میں نکلے تھے جاں سے ہار گئے


سوال ایک تھا، لیکن مِلے جواب بہت
پڑھی ہے میں نے محبت کی یہ کتاب بہت

گئی بہار تو پھر کون حال پوچھے گا
کرو نہ چاہنے والوں سے اِجتناب بہت

یہ آسمان و زمیں سب تمہیں مبارک ہوں
مرے لئے ہے یہ ٹُوٹا ہوا رباب بہت

یہاں پہ دیکھو ذرا اِحتیاط سے رہنا
مِلے ہیں پہلے بھی اس خاک میں گُلاب بہت

میں جانتا ہوں انہیں، وقت کے حواری ہیں
جو لوگ خُود کو سمجھتے ہیں کامیاب بہت

رہِ جنوں میں اکیلا نہیں میں خوار و زبُوں
مری طرح سے ہوئے ہیں یہاں خراب بہت

کسی نے کاسۂ سائل میں کچھ نہیں ڈالا
سمندروں سے میں کرتا رہا خطاب بہت

کُھلی ہوئی ہیں دُکانیں کئی نگاہوں کی
طلب ہو دل میں تو پینے کو ہے شراب بہت

خدا کرے وہ مرا آفتاب آ نکلے
دلوں میں آگ لگاتا ہے ماہتاب بہت

سُنا کے قصّہ تمہیں کس لئے اُداس کریں
کہ ہم پہ ٹُوٹے ہیں اس طرح کے عذاب بہت

تلاشِ یار میں نکلے تھے جاں سے ہار گئے
خبر نہ تھی کہ وہ ظالم ہے دیریاب بہت

کبھی وہ بُھول کے بھی اس طرف نہیں آیا
اگرچہ آتے ہیں آنکھوں میں اُس کے خواب بہت

اسی لئے ترے کُوچہ میں اب وہ بِھیڑ نہیں
کہ لُطف کم ہے تری آنکھ، میں عتاب بہت

یہاں رہے گا ترے اِقتدار کو خطرہ
کہ آتے رہتے ہیں اس دل میں اِنقلاب بہت

کسی کو بھیج کے احوال تو کیا معلوم
مرے لئے تو یہی لُطف ہے جناب بہت

وہی نرم لہجہ


وہی نرم لہجہ
جو اتنا ملائم ہے ، جیسے
دھنک گیت بن کر سماعت کو چھُونے لگی ہو
شفق نرم کومل سُروں میں کوئی پیار کی بات کہنے چلی ہو
کِس قدر!___رنگ و آہنگ کا کِس قدر خُوب صورت سفر!
وہی نرم لہجہ
کبھی اپنے مخصوص انداز میں مُجھ سے باتیں کرے
تو ایسا لگے
جیسے ریشم کے جھُولے پہ کوئی مدھر گیت ہلکورے لینے لگا ہو!
وہی نرم لہجہ
کسی شوخ لمحے میں اُس کی ہنسی بن کے بکھرے
تو ایسا لگے
جیسے قوسِ قزح نے کہیں پاس ہی اپنی پازیب چھنکائی ہو،
ہنسی کی وہ رِم جھم!
کہ جیسے بنفشی چمک دار بوندوں کے گھنگرو چھنکنے لگے ہوں !
کہ پھر
اس کی آواز کا لمس پا کے
ہواؤں کے ہاتھوں میں اَن دیکھے کنگن کھنکنے لگے ہوں !
وہی نرم لہجہ!
مُجھے چھیڑنے پر جب آئے تو ایسا لگے
جیسے ساون کی چنچل ہوا
سبز پتوں کے جھانجھن پہن
سُرخ پھُولوں کی پائل بجاتی ہُوئی
میرے رُخسار کو
گاہے گاہے شرارت سے چھُونے لگے
میں جو دیکھوں پلٹ کے، تو وہ
بھاگ جائے____مگر
دُور پیڑوں میں چھُپ کر ہنسے
اور پھر__ننھے بچوں کی مانند خوش ہوکے تالی بجانے لگے!
وہی نرم لہجہ!
کہ جس نے مرے زخمِ جاں پر ہمیشہ شگفتہ گلابوں کی شبنم رکھی ہے
بہاروں کے پہلے پرندے کی مانند ہے
جو سدا آنے والے نئے سُکھ کے موسم کا قاصد بنا ہے
اُسی نرم لہجے نے پھر مُجھ کو آواز دی ہے!

Pyar men hai nasab na he zaaten


teri tasveer sey karuun baaten

haaye mumkin nahi mulaaqaten


koi bhi rut ho meri aankhon men

beth jati hain aa kay barsaaten


merey har din pey chaaii rehti hain

teri doori ki dukh bhari raaten


baat maqsoon thi yehi warna

pyar men hai nasab na he zaaten


jeet to mein gaee magar hamdam

is say mansoob hain kaii maaten


haarnay ko bacha nhi kuch ab

phir bhi hain meri taak men ghaaten


پیار میں ہے نَسَب نہ ہی ذاتیں


تیری تصویر سے کروں باتیں
ہائے ممکن نہیں ملاقاتیں

کوئی بھی رُت ہو میری آنکھوں میں
بیٹھ جاتی ہیں آ کے برساتیں

میرے ہر دن پہ چھائی رہتی ہیں
تیری دوری کی دُکھ بھری راتیں

بات مقسوم تھی یہی ورنہ
پیار میں ہے نَسَب نہ ہی ذاتیں

جیت تو میں گئی مگر ہمدم
اِس سے منسوب ہیں کئی ماتیں

ہارنے کو بچا نہیں کچھ اب
پھر بھی ہیں میری تاک میں گھاتیں 

Thursday, 26 September 2013

ایک عام سی لڑکی


کچھ پتہ نہیں چلتا
وہ عجیب سی لڑکی
کب اداس ہوتی ہے 
تتلیوں سے ہنس ہنس کر
کب کلام کرتی ہے 
کب گلاب کے دل میں
چھپ کے اشک روتی ہے
کچھ پتہ نہیں چلتا
ایک عام سی لڑکی 
اتنی غیر معمولی
اتنی نارسا کیوں ہے 

Anjani Larki



Khawabon ki dehleez pay bethi
Aas ka deep haath men thaamay
Janay woh kab say sulag rahi hai
Waqt ka deemak chaat raha hai
Us kay saaray khawabon ko
Taiz hawa ki zad say kab tak
Aas kay deep bachaaye gi
Ik din woh anjani larki
Khud he toot jaaye gi

ایک یاد باقی ہے


جھیل کی اداسی میں 
بے دلی کی دلدل پر 
بے خبر سے منظر ہیں 
درد کے سمندر میں 
ایک یاد باقی ہے 
آنکھ میں خزاں رت ہے 
گرد اڑاتی رہتی ہے 
پھر بھی ایک کونے میں 
اک گلاب باقی ہے 
ایک یاد باقی ہے 

کہاں تلک کوئی ڈھونڈے مسافروں کا سراغ


بھری بہار میں اب کے عجیب پھول کھلے
نہ اپنے زخم ہی مہکے، نہ دل کے چاک سلے

کہاں تلک کوئی ڈھونڈے مسافروں کا سراغ
بچھڑنے والوں کا کیا ہے، ملے ملے نہ ملے

عجیب قحط کا موسم تھا اب کے بستی میں
کیے ہیں بانجھ زمینوں سے بارشوں نے گِلے

یہ حادثہ سرِ ساحل رُلا گیا سب کو
بھنور میں ڈوبنے والوں کے ہاتھ بھی نہ ملے

سناں کی نوک، کبھی شاخِ دار پہ محسن
سخنوروں کو ملے ہیں مشقتوں کے صلے


شکستِ خواب کی ساعت


عذاب اپنے بکھیروں کہ مُرتسم کرلوں
میں ان سے خود کو ضرب دُوں کہ منقسم کرلوں

میں آندھیوں کی مزاج آشنا رہی ہوں مگر
خُود اپنے ہاتھ سے کیوں گھر کو منہدم کرلوں

بچھڑنے والوں کے حق میں کوئی دُعا کرکے
شکستِ خواب کی ساعت محتشم کرلوں

بچاؤ شیشوں کے گھر کا تلاش کرہی لیا
یہی کہ سنگ بدستوں کا مُنصرِم کرلوں

میں تھک گئی ہوں اِس اندر کی خانہ جنگی سے
بدن کو’’سامرا‘‘ آنکھوں کو ’’معتصمِ‘‘کرلوں

مری گلی میں کوئی شہر یار آتا ہے
ملا ہے حکم کہ لہجے کو محترِم کرلوں

Mein koshish kar kay dekhoon ga magar waada nhi karta


Tera israar sar aankhon pay tujh ko bhool janay ki
Mein koshish kar kay dekhoon ga magar waada nhi karta

ترا اصرار سر آنکھوں پہ تجھ کو بھول جانے کی
میں کوشش کرکے دیکھوں گا مگر وعدہ نہیں کرتا

Mera wajood teray 'ain'sheen'kaaf' men hai


Tera wajood riwajon kay aitkaaf men hai
Mera wajood teray 'ain'sheen'kaaf' men hai

تیرا وجود رواجوں کے اعتکاف میں ہے
میرا وجود تیرے 'ع' 'ش' 'ق' میں ہے

پھر رفتہ رفتہ تم سے محبت سی ھو گئی


ہر شام تم سے ملنے کی عادت سی ھو گئی
پھر رفتہ رفتہ تم سے محبت سی ھو گئی

شاید یہ تازہ تازہ جُدائی کا اثر تھا
ہر شکل یک بہ یک تیری صورت سی ھو گئی

اِک نام جھلملانے لگا دل کی طاق پر
اِک یاد جیسے باعثِ راحت سی ھو گئی

خود کو سجا سنوار کے رھنے کا شوق تھا
پھر اپنے آپ سے نفرت سی ھو گئی

میں نے کوئی بیانِ صفائی نہیں دیا
بس چُپ رھے تو خُود ہی وضاحت سی ھو گئی۔ 

راہِ عشق میں واپسی کے راستے نہیں رہتے


راہِ عشق میں واپسی کے راستے نہیں رہتے
جو اس راہ میں بھٹک جائیں وہ کہیں کے نہیں رہتے

محبتوں میں دوریاں کوئی معنی نہیں رکھتیں
دل جو دل کے قریب ہوں تو فاصلے نہیں رہتے

محبت خود ہی سکھا دیتی ہے راضی با رضا ہونا
جب عشق کامل ہو جائے تو پھر گلے نہیں رہتے

محبتوں میں وفاؤں کا تسلسل بھی ضروری ہے
ربط ٹوٹ جائے تو وہ سلسلے نہیں رہتے

آؤ اس کی یادوں کو ہمسفر کر لیں کنول
اتنی بڑی دنیا میں یوں اکیلے نہیں رہتے 


ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﺟﺎﮌ ﺩﮮ ﮔﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﺴﯽ کہ


ﺑﮩﺎﺭ ﺭُﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﮌ ﺭﺍﺳﺘﮯ
ﺗﮑﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺭﻭ ﭘﮍﻭ ﮔﮯ

ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﺤﺴﻦ
ﺳﺠﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺭﻭ ﭘﮍﻭ ﮔﮯ

ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﻭﻋﺪﻭﮞ ﻧﮯ ﯾﺎﺭ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺗﺒﺎﮦ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﭽﮫ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺳﮯ

کہ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ
ﺩﻏﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺭﻭ ﭘﮍﻭ ﮔﮯ

ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ
ﺍﺟﺎﮌ ﺩﮮ ﮔﯽ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ایسے کہ

 ﭼﺎﻧﺪ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ
ﻣﻼ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺭﻭ ﭘﮍﻭ ﮔﮯ

ﺑﺮﺳﺘﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻨﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺳﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ

ﮐﺴﯽ ﻭﻟﯽ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺭ ﭘﺮ ﺟﺐ
ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺭﻭ ﭘﮍﻭ ﮔﮯ

یاد کی آگ دہکنے لگی


رات کے اندھیرے میں
سرد تاریک کمرے میں
جگنو تمھاری یاد کا
اچانک ٹمٹما اٹھا
درد کی اک ٹیس نے
پھر سے انگڑائی لی
خامو ش رات مہکنے لگی
یاد کی آگ دہکنے لگی 

!!!کچھ تیری یاد کے جگنو بھی ____ غضب کرتے ہیں


....کچھ تو ____چمکاتے ہوے رکھتے ہیں شب کو آنسو

 !!!کچھ تیری یاد کے جگنو بھی ____ غضب کرتے ہیں 

 !!!! ہم سے مت پوچھ میری جان 
 .... تیرے ہجر میں ہم 
کس طرح ؟؟ 
!!!....جاگتے سوتے ہوے شب کرتے ہیں 

تیری الفت کے تقاضے بھی عجب انداز کے تھے


دن نکلے تو سوچ الگ ، شام ڈھلے وجدان الگ
امید الگ ، آس الگ ، سکون الگ ، طوفان الگ

تشبیہ دوں تو کس سے ، کہ تیرے حسن کا ہر رنگ
نیلا الگ ، زمرد الگ ، یاقوت الگ ، مرجان الگ

تیری الفت کے تقاضے بھی عجب انداز کے تھے
اقرار الگ ، تکرار الگ ، تعظیم الگ ، فرمان الگ

گر ساتھ نہیں دے سکتے تو بانٹ دو یکجان لمحے
مسرور الگ ، نڈھال الگ ، پرکیف الگ ، پریشان الگ

وقت رخصت الوداع کا لفظ جب کہنے لگے
آنسو الگ ، مسکان الگ ، بیتابی الگ ، ہیجان الگ

جب چھوڑ گیا ، تب دیکھا اپنی آنکھوں کا رنگ
حیران الگ ، پشیمان الگ ، سنسان الگ ، بیابان الگ

خامشی درد کی ترسِیل بھی ہو سکتی ہے


یہ چمک دھُول میں تحلیل بھی ہو سکتی ہے 
کائنات اِک نئی تشکیل بھی ہو سکتی ہے 

تم نہ سمجھو گے کوئی اور سمجھ لے گا اِسے 
خامشی درد کی ترسِیل بھی ہو سکتی ہے 

کچھ سنبھل کر رہو اِن سادہ ملاقاتوں میں 
دوستی عشق میں تبدیل بھی ہو سکتی ہے 

میں ادھُورا ہوں مگر خُود کو ادھُورا نہ سمجھ
مجھ سے مل کر تری تکمیل بھی ہو سکتی ہے 

کاٹنا رات کا آسان بھی ہو سکتا ہے 
دل میں اِک یاد کی قندِیل بھی ہو سکتی ہے 

اس قدر بھی نہ بڑھو دامنِ دل کی جانب 
یہ محبت کوئی تمثِیل بھی ہو سکتی ہے 

ہاں دل و جان فدا کر دو ظہیر اس پہ مگر
یہ بھی اِمکان ہے تذلِیل بھی ہو سکتی ہے

اک عمر جسے خواب کی مانند ہی دیکھا


رستہ ہی نیا ہے ، نہ میں انجان بہت ہوں
پھر کوئے ملامت میں ہوں ، نادان بہت ہوں

اک عمر جسے خواب کی مانند ہی دیکھا
چُھونے کو ملا ہے تو پریشان بہت ہوں

مُجھ میں کوئی آہٹ کی طرح سے کوئی آئے
اک بند گلی کی طرح سنسان بہت ہوں

دیکھا ہے گریز اُس نگاہِ سرد کا اتنا
مائل بہ توجہّ ہے تو حیران بہت ہوں

اُلجھیں گے کئی بار ابھی لفظ سے مفہوم
سادہ ہے بہت وہ نہ میں آسان بہت ہوں‎

Us shakhs kay wajdaan ki takmeel hai mujh say




Us shakhs kay wajdaan ki takmeel hai mujh say
Ik roz palat aaye ga woh shakhs adhoora

اس شخص کے وجدان کی تکمیل ہے مجھ سے
اک روز پلٹ آے گا وہ شخص ادھورا

Wednesday, 25 September 2013

کیوں یہ بندھن ٹوٹا ہے


کہہ بھی دے اب وہ سب باتیں
جو دل میں پوشیدہ ہیں
سارے روپ دکھا دے مجھ کو
جو اب تک نادیدہ ہیں
 
ایک ہی رات کے تارے ہیں
ہم دونوں اس کو جانتے ہیں
دوری اور مجبوری کیا ہے
اس کو بھی پہچانتے ہیں
 
کیوں پھر دونوں مل نہیں سکتے
کیوں یہ بندھن ٹوٹا ہے
یا کوئی کھوٹ ہے تیرے دل میں
یا میرا غم جھوٹا ہے

میرے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا


یہ  تیرا جمالِ کاکُل یہ شباب کا زمانہ
دل دشمناں سلامت دلِ دوستاں نشانہ

میری زندگی تو گزری تیرے ہجر کے سہارے
میری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق تجھ میں مجھ میں
تیرا درد، دردِ تنہا میرا غم، غمِ زمانہ

میرے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا
مجھے اے “جگر” مبارک  یہ شکستِ فاتحانہ

محبت کے ہر لمحے کو امر کر دو


میری آنکھوں میں اتر آئو، انہں سمندر کر دو
کچھ دیر ہی سہی محبت کی نظر کر دو
 
ٹوٹ کے ملو کہ ارمان نہ رہ جائے کوئی
یوں محبت کے ہر لمحے کو امر کر دو
 
ہم پہ نہ آئے کوئی قیامت سا وقت
بڑی مشکل ہے جدائی اسے مختصر کر دو
 
جن کے نور سےمل جائے بینائی ہمیں بھی
اپنے خوابوں کو میری آنکھوں کی نظر کر دو
 
دنیاکی طلب نہیں مگر یہ حسرت ہے ہماری
اپنی بانہوں میں لو،دنیا سے بے خبر کر دو

ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﮨﻮ ﺭﺳﻢِ ﺩﻭﺭﯼ


ﻧﯿﺎ ﺍﮎ ﺭﺑﻂ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟ ﮨﻢ
ﺑﭽﮭﮍﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ‘ﺟﮭﮕﮍﺍ‘ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟﮨﻢ

ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺩﺍ ﮨﻮ ﺭﺳﻢِ ﺩﻭﺭﯼ
ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻨﮕﺎﻣﮧ ﺑﺮﭘﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟﮨﻢ

ﯾﮧ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﺷﻤﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﺩﻋﻮﯼٰ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟﮨﻢ

ﻭﻓﺎ، ﺍﺧﻼﺹ، ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ، ﻣﺤﺒﺖ
ﺍﺏ ﺍﻥ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﯿﭽﮭﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟﮨﻢ

ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻭﺍﺳﻄﮯ ﮨﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﺮﻭ ﺗﻢ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮨﯽ ﺗﻤﻨﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﯾﮟﮨﻢ

وہ جو آگ تھی وہ نہیں رہی، جو یقین تھے وہ گماں ہوئے


یہ جو وقت ہے مرے شہر پر کئی موسموں سے رُکا ہوا
اِسے اِذن دے کہ سفر کرے
اِسے حکم دے کہ یہ چل پڑے ۔۔ مرے آسمان سے دُ ور ہو
کوئی چاند چہرہ کُشا کرے ؛ کوئی آفتاب ظہور ہو
کہ نواحِ چشمِ خیال میں وہ جو خواب تھے ۔۔ وہ دھواں ہوئے
وہ جو آگ تھی وہ نہیں رہی، جو یقین تھے وہ گماں ہوئے
کوئی دُھند ہے جسے دیکھتے مری آنکھ برف سی ہو گئی
وہ عبارتِ سرِ لوحِ دل، کسی ربط سے نہیں آشنا
کہ جو روشنی تھی کتاب میں وہی حرف حرف سی ہو گئی
کوئی گرد باد اُٹھے کہیں کسی زلزلے کی نمود ہو
یہ جو ہست ہے مرے چار سو، کوئی معجزہ کہ یہ “بود” ہو

مری آنکھ میں یہ جو رات ہے مری عمر سی اسے ٹال دے
مرے دشتِ ریگِ ملال کو کسی خوش خبر کا غزال دے
یہ فلک پہ جتنے نجوم ہیں ترے حکم کے ہیں یہ منتظر
وہ جو صبحِ نو کا نقیب ہو مری سمت اُس کو اُچھال دے

حیراں ہے آنکھ جلوۂ جاناں کو کیا ہوا


حیراں ہے آنکھ جلوۂ جاناں کو کیا ہوا
ویراں ہیں خواب گیسوئے رقصاں کو کیا ہوا ؟

     قصرِ حسیں خموش ہے ، ایوان پر سکوت
                                                          آوازہائے سروِ خراماں کو کیا ہؤا ؟

پردوں سے روشنی کی کرن پھوٹتی نہیں
       اس شمع رنگ و بو کے شبستاں کو کیا ہوا ؟

                                                                                                            دنیا سیاہ خانۂ غم بن رہی ہے کیوں
اللہ! میرے ماہِ خراماں کو کیا ہوا ؟

        طوفاں اٹھا رہی ہیں مرے دل کی دھڑکنیں
      اس دستِ نرم و ساعدِ لرزاں کو کیا ہوا ؟

                                                                                                           نادان آنسوؤں کو ہے مدت سے جستجو
آرام گاہِ گوشۂ داماں کو کیا ہوا ؟

        سیراب کارئ لبِ گل گوں کدھر گئی
              ہیں تشنہ کام، ساغرِ جاناں کو کیا ہوا ؟

                                                                                                               کشتِ مراد ہو چلی نذرِ سمومِ غم
یارب نمودِ ابر خراماں کو کیا ہوا ؟

              روتا ہے بات بات پہ یوں زار زار کیوں ؟
اختر ، خبر نہیں دل ناداں کو کیا ہوا ؟

تہمتیں تو لگتی ہیں


تہمتیں تو لگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
گھر سے باہر آنے کی کُچھ سزا تو ملتی ہے
لوگ لوگ ہوتے
ان کو کیا خبر جاناں !
آپ کے اِرادوں کی خوبصورت آنکھوں میں
بسنے والے خوابوں کے رنگ کیسے ہوتے ہیں
دل کی گود آنگن میں پلنے والی باتوں کے
زخم کیسے ہوتے ہیں
کتنے گہرے ہوتے ہیں
کب یہ سوچ سکتے ہیں
ایسی بے گناہ آنکھیں
گھر کے کونے کھدروں میں چھُپ کے کتنا روتی ہیں
پھر بھی یہ کہانی سے
اپنی کج بیانی سے
اس قدر روانی سے داستان سنانے
اور یقین کی آنکھیں
سچ کے غمزدہ دل سے لگ کے رونے لگتی ہیں
تہمتیں تو لگتی ہیں
روشنی کی خواہش میں
تہمتوں کے لگنے سے
دل سے دوست کو جاناں
اب نڈھال کیا کرنا
تہمتوں سے کیا ڈرنا

یہ عشق بھی کیا ہے ؟


یہ عشق بھی کیا ہے ؟ اسے اپنائے کوئی اور
چاہوں میں کسی اور کو یاد آئے کوئی اور

اس شخص کی محفل کبھی برپا ہو تو دیکھو
ہو ذکر کسی اور کا شرمائے کوئی اور

اے ضبط انا مجھ کو یہ منظر نہ دکھانا
دامن ہو کسی اور کا پھیلائے کوئی اور

                                                                                                         سر نوک سینا پر ہے بدن رزق زمین ہے
مقتل سے میرا الم اٹھا لائے کوئی اور

سینے میں عجب آگ ہے اک عمر سے پنہاں
خواہش ہے کہ اس آگ کو دہکائے کوئی اور

                                                                                                          مجھ پر نہیں کھلتا میرا سوچا ہوا اک لفظ
مطلب مجھے اس لفظ کا سمجھائے کوئی اور



کہیں عشق ' کی دیکھی ابتدا


کہیں عشق ' کی دیکھی ابتدا
کہیں عشق ' کی دیکھی انتہا

کہیں عشق ' سولی پہ چڑھ گیا
کہیں عشق ' کا نیزے پہ سر گیا

کہیں عشق ' سیف خدا بنا
کہیں عشق ' شیر خدا بنا

کہیں عشق ' طور پہ دیدار ھے
... کہیں عشق ' ذبح کو تیار ھے

کہیں عشق ' آنکھوں کا نور ھے
کہیں عشق ' کوہ طور ھے

کہیں عشق ' تو ھی تو ھوا
کہیں عشق ' الله ھو ھوا

ہر شبِ غم کی سحر ہو ضروری تو نہیں


عمر جلووں میں بسر ہو یہ ضروری تو نہیں
ہر شبِ غم کی سحر ہو ضروری تو نہیں

چشمِ ساقی سے پیو یا لبِ ساغر سے پیو
بے خودی آٹھوں پہر ہو یہ ضروری تو نہیں

نیند تو درد کے بستر پہ بھی آ سکتی ہے
اُن کی آغوش میں سر ہو یہ ضروری تو نہیں

شیخ کرتا تو ہے مسجد میں خدا کو سجدے
اُس کے سجدوں میں اثر ہو یہ ضروری تو نہیں

سب کی نظروں میں ہو ساقی یہ ضروری ہے مگر
سب پہ ساقی کی نظر ہو یہ ضروری تو نہیں

گزر گئی جو تیرے ساتھ ' یادگار ھے وہ


عجیب کرب میں گزری ' جہاں گزری
اگرچہ چاھنے والوں کے ' درمیاں گزری

تمام عمر جلاتے رھے ' چراغ ِامید
تمام عمر اُمیدوں کے ' درمیاں گزری

گزر گئی جو تیرے ساتھ ' یادگار ھے وہ
تیرے بغیر جو گزری ' بلائے جاں گزری

مجھے سکون میّسر نہیں تو ' کیا غم ھے
... گُلوں کی عمر تو کانٹوں کے ' درمیاں گزری

عجیب چیز ھے ' یہ گردش ِزمانہ بھی
کبھی زمیں پہ ' کبھی مثل ِآسماں گزری

تین منظر


                                                                                                                              تصور

شوخیاں مضطر نگاہِ دید سرشار میں

عشرتیں خوابیدہ رنگِ غازہ ء رخسار میں

سرخ ہونٹوں پر تبسم کی ضیائیں جس طرح

یاسمن کے پھول ڈوبے ہوں مے گلنار میں


                                                                                                                              سامنا

چھنتی ہوئی نظروں سے جذبات کی دنیائیں

بے خوابیاں، افسانے، مہتاب، تمنائیں

کچھ الجھی ہوئی باتیں، کچھ بہکے ہوئے نغمے

کچھ اشک جو آنکھوں سے بے وجہ چھلک جائیں

                                                                                                                      رخصت

فسردہ رخ، لبوں پر اک نیاز آمیز خاموشی

تبسم مضمحل تھا، مرمریں ہاتھوں میں لرزش تھی

وہ کیسی بے کسی تھی تیری پر تمکیں نگاہوں میں

وہ کیا دکھ تھا تری سہمی ہوئی خاموش آہوں میں

ستارہ سی آنکھیں شرارہ سے لب !اور صحیفہ سا چہرہ


!عجب خال و خد تھے
ستارہ سی آنکھیں
شرارہ سے لب
!اور صحیفہ سا چہرہ
بات۔۔۔۔خوشبو
!محبت۔۔۔۔بہت گہری آسودگی فصلِ گل کی
مگر آج وہ خال و خد دیکھ کر سوچتا ہوں
کہ میری بصارت کو پت جھڑ کی تنہائی نے کھا لیا ہے

Tuesday, 24 September 2013

Woh bay-khabar intiha ka tha


Meray qurb sey meray wajood tak, 
Usay ikhtilaf to sada ka tha.. 

Meray ghum sey meray junoon tak, 
Yeh faasla bus ana ka tha. 

Meri zindagi sey meri saans tak, 
Woh falsafa buss dua ka tha. 

Meri baat sey Teray zikr tak, 
Koi silsila jo hawa ka tha. 

Meri haqiqat sey meray khawab tak, 
Woh bay-khabar intiha ka tha 

Meray veham sey meray gumaan tak, 
Yeh marhala wafa ka tha.. 

Meri talab sey meray naseeb tak, 
Yeh maamla khuda ka tha

Mein chaahti thi rooh usay sonp doon magar


Mein chaahti thi rooh usay sonp doon magar
Us aadmi ki sirf badan par nigaah thi

میں چاہتی تھی روح اُ سے سونپ دوں مگر
اُ س آدمی کی صرف بدن پر نگاہ تھی

ﮐﺴﯽ ﺷﺎﻡِ ﻣﻼﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ


ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ
ﺗﻮ ﮐﺒﮭﯽ ﺧﺪّﻭﺧﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺩﮬﻤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﯾﮑﮫ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﻣﯿﺮﯼ ﻣﭩﯽ ﮐﻮ ﺁﻧﮑﮫ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ
ﮐﺴﯽ ﻣﻮﺝِ ﻭﺻﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﻣُﺠﮭﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻋﺮﺻۂ ﺣﯿﺎﺕ ﺩﯾﺎ
ﺍﺏ انہی ﻣﺎﮦ ﻭ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﮐﺴﯽ ﺻﺒﺢِ ﻓﺮﺍﻕ ﻣﯿﮟ ﻣُﺠﮭﮯ ﭼﮭﻮﮌ
ﮐﺴﯽ ﺷﺎﻡِ ﻣﻼﻝ ﻣﯿﮟ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﮨﮯ , ﻭُﮦ ﺗﻮ ﮨﮯ
ﺍُﺳﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﺗﯿﺮﮮ ﺷﺎﯾﺎﻥِ ﺷﺎﮞ ﮨﮯ ﻭﺻﻒ ﯾﮩﯽ
ﮐﺴﯽ ﻭﻗﺖِ ﻣﺤﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻞ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﮞ
ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ

ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻞ ﮐﺮ ﻋﺮﻭﺝ ﺩﮮ ﯾﺎ ﻧﮧ ﺩﮮ
ﻣﯿﺮﮮ ﻭﻗﺖِ ﺯﻭﺍﻝ ﻣﯿﮟ ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻞ !!

خزاں کے رنگوں میں ایک رنگ اداسی کا


خزاں کے رنگوں میں ایک رنگ اداسی کا

تمہیں دیکھا ہے بارہا میں نے
اور دیکھ کر ہر بار یہی سوچا ہے
تیرے چہرے کی مسکراہٹ کا 
تیری آنکھٰیں ساتھ نہیں دیتیں

تیرے ہنستے ہوئے ہونٹوں 
کے قہقہوں پر مجھے 
جانے کیوں
کراہوں کا گماں گزرتا ہے

کونسا دکھ ہے جس کی شدت نے
تیرے جوبن کو گھیر رکھا ہے
وہ کیا آگ ہے جس کے نرغے میں
تیرا کومل وجود جھلسا ہے

ایسی حالت میں کیا دلاسا ہو
کوئی صورت ترے دل کو بہلانے کی
لو میں تمہاری آنکھوں کو
اک حسین شام دیتا ہوں
تیرے دکھ میں کمی کے لیے
اپنا جیون تمام دیتا ہوں

تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو


ملیں پھر آکے اسی موڑ پر دعا کرنا 
کڑا ہے اب کے ہمارا سفر دعا کرنا 

دیارِ خواب کی گلیوں کا جو بھی نقشہ ہو 
مکینِ شہر نہ بدلیں نظر دعا کرنا 

چراغ جاں پہ اس آندھی میں خیریت گزرے 
کوئی امید نہیں ہے مگر دعا کرنا 

تمہارے بعد مرے زخمِ نارسائی کو 
نہ ہو نصیب کوئی چارہ گر دعا کرنا 

میں نے بویا اِک دکھ کا بیج


میں نے بویا اِک دکھ کا بیج 

جس سے کرب کی جڑیں پھوٹیں 

دَرد کا اس سے تنا نکلا 

الم کی اس کو ٹہنیاں لگیں 

جس سے رنج کی شاخیں بکھریں 

اور غموں کے پھول کھلے

Monday, 23 September 2013

Yeh kis kay sog men shorida haal phirta hoon

 Picture

Yeh kis kay sog men shorida haal phirta hoon
Woh kon shakhs tha aisa keh mar gaya mujh men
Woh sath tha to ajab dhoop chhaaon rehti thi
bas ab to aik he mauson thehar gaya mujh men

یہ کس کے سوگ میں شوریدہ حال پھرتا ھوں
وہ کون شخص تھا ایسا کہ مر گیا مجھ میں
وہ ساتھ تھا تو عجب دھوپ چھائوں رہتی تھی
بس اب تو ایک ہی موسم ٹھہر گیا مجھ میں

اک محبت میرا اثاثہ ہے


اور اک محبت میرا اثاثہ ہے 
اور اک ہجر بہ کراں جاناں 
یہ تو سوچا نہ تھا کبھی آنسو 
ایسے جائیں گے رائیگاں جاناں 
میں تیرے بارے میں کچھ غلط کہہ دوں 
کٹ نہ جائے میری زباں جاناں

تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے


حیران ہوں کے یہ کون سا دستور وفا ہے
تو مثل رگ جاں ہے تو کیوں مجھ سے جدا ہے

تو اہل نظر تو نہیں تجھ کو خبر کیا 
پہلو میں تیرے کوئی زمانے سے کھڑا ہے

لکھا ہے میرا نام سمندر پہ ہوا نے ،
اور دونوں کی فطرت میں سکون ہے نا وفا ہے

اٹھتی ہیں جو پہلو سے میرے درد کی لہریں
بیتاب سمندر کوئی سینے میں دبا ہے

اے ذیست کے دوزخ سے گزرتے ہوئے لمحوں
سوچا ہے کبھی تم نے کہہ جینا بھی سزا ہے 

نگا ہوں سے اک خواب گزرنے والا ہے


نگا ہوں سے اک خواب گزرنے والا ہے
کھڑکی سے مہتاب گزرنے والا ہے

صدیوں کے ان خواب گزیدہ شہروں سے
مہرِ عالم تاب گزرنے والا ہے

جادو گر کی قید میں تھے جب شہزادے
قصے کا وہ باب گزرنے والا ہے

مجھے معجزوں پہ یقیں تو نہیں ہے


مجھے معجزوں پہ یقیں تو نہیں ہے 
مگر پھر بھی آنکھوں میں سپنے سجائے
تری رہگذر سے 
میں دن میں کئی بار یونہی گذرتا
کہ شاید کبھی آمنا سامنا ہو
تو بس ایک لمحے کو تُو مجھ کو دیکھے
میں اُس ایک لمحے میں جیون بتا لوں

Ab zaroori hai keh mein wajd men laaoon tujh ko



Ab mera ishq dhamaalon say kahin aagay hai
Ab zaroori hai keh mein wajd men laaoon tujh ko

Tu nhi maanta mitti ka dhuwan ho jana...!!!
To abhi raqs karoon?? ho kay dikhaauun tujh ko????

ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﻋﺸﻖ ﺩﮬﻤﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺁﮔﮯ ﮬﮯ
ﺍﺏ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮬﮯ کہ ﻣﯿﮟ ﻭﺟﺪ ﻣﯿﮟ ﻻﺅﮞ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ

!!!...ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﺎ ﻣﭩﯽ ﮐﺎ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﮨﻮ ﺟﺎﻧﺎ
ﺗﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﻭﮞ ؟؟ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺩﮐﮭﺎﺅﮞ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ؟؟؟؟

تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا


تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
جا، اب ترا خیال مجھے بھی نہیں رہا

تُو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی
اب شوقِ ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا

میرا جواب کیا تھا ، تجھے بھی خبر نہیں
یاد اب ترا سوال، مجھے بھی نہیں رہا

جس بات کا خیال نہ تُو نے کیا کبھی
اُس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا

توڑا ہے تُو نے جب سے مرے دل کا آئینہ
اندازہء جمال مجھے بھی نہیں رہا

باقی میں اپنے فن سے بڑا پُرخلوص ہوں
اِس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا

Meray saamaan men rakhi hain yaaden


Tera lehja bad'alta ja raha hai
Magar ab dil sanbhalta ja raha hai

Meray saamaan men rakhi hain yaaden
Safar khushbu men dhalta ja raha hai

Diay us aank men jalnay lagay hain
Mera chehra pighalta ja raha hai

Kinaray ab talak tishna hain lekin
Yeh darya rukh badalta ja raha hai

Teray is shehar men khud ko ganwa kay
Musafir haath malta ja raha hai

Agarchay roz mausom bheegta hai
Yeh jungle roz jalta ja raha hai

کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے میرا رونے والا


پھر وہی میں ہوں وہی شہر بدر سناٹا
مجھ کو ڈس نہ لے کہیں خاک بسر سناٹا

دشت ہستی میں شب غم کی سحر کرنے کو
ہجر والوں نے لیا رخت سفر سناٹا

کس سے پوچھوں کہ کہاں ہے میرا رونے والا
اس طرف میں ہوں، میرے گھر سے ادھر سناٹا

تو صداؤں کے بھنور سے مجھے آواز تو دے
تجھ کو دے گا میرے ہونے کی خبر سناٹا

اس کو ہنگامہ منزل کی خبر کیا دو گے
جس نے پایا ہو سر رہگزر سناٹا

حاصل کنج قفس، وہم بکف تنہائی
رونق شام سفر ، تا بہ سحر سناٹا

قسمت شاعر سیماب صفت، دشت کی موت
قیمت ریزہ الماس ہنر سناٹآ

جان محسن میری تقدیر میں کب لکھا ہے
ڈوبتا چاہند، ترا قرب، گجر، سناٹآ

Tera jism be'taghayyur hai mera pyaar jawedaan hai


yeh chiragh be'nazar hai yeh sitara be'zubaan hai 
abhi tujh sey milta julta koi doosra kahan hai 

wohi shakhs jis pey apney dil'o'jaan nisaar ker doun 
wo ager khafa nahi hai tu zuroor badgumaan hai 

kabhi paa kay tujh ko khona kabhi kho kay tujh ko pana 
yeh janam janam ka rishta terey merey darmiyaan hai 

merey saath chalney waley tujhey kaya mila safar men 
wohi dukh bhari zameen hai wohi gham ka aasman hai 

mein isi gumaan men barson bara mutma'in raha houn 
tera jism be'taghayyur hai mera pyaar jawedaan hai 

unhi raston ney jin per kabhi tum they saath merey 
mujhey rok rok poocha tera humsafar kahan hai

تیری یاد کے زخم سے رفاقت آج بھی ہے


شام کے اس پہر میں وحشت آج بھی ہے
جدائی کی اس گھڑی میں قیامت آج بھی ہے

رخصت ہوۓ تو آنکھ سے آنسو نہیں گرا
تجھ سے بچھڑنے پر ہم کو حیرت آج بھی ہے

دھوپ کے اس سفر نے ہمیں سب کچھ بھلادیا
پر تیری یاد کے زخم سے رفاقت آج بھی ہے

جلاتے ہیں اپنے خون سے چراغوں کے سلسلے
پتھروں کے اس نگر میں شہرت آج بھی ہے

خوب ہوتے ہيں چاہت کے يہ ميٹھے رشتے


کس طرح ياد کروں کيسے بھلاؤں تجھ کو 
تو کوئی رسم نہيں ہے کہ نبھاؤں تجھ کو 

روز آنکھوں سے بکھرتا ہے نيا خواب کوئی 
دل يہ کہتا ہے نہ آنکھوں ميں سجاؤں تجھ کو 

خوب ہوتے ہيں چاہت کے يہ ميٹھے رشتے 
بھول کر بھی کبھی دشمن نا بناؤں تجھ کو 

تيرے جانے پہ مچلتا ہے بہت دل ليکن 
ضبط اتنا ہے کہ پھر بھی نہ بلاؤں تجھ کو 

زندگی کون سا تاروں کا فلک ہے فراز 
کس طرح اپنا ستارہ ميں بناؤں تجھ کو

TohmateN, BadnaamiyaaN, RusvaaiyaaN


haaye logoN kii karam-farmaaiyaaN
tohmateN, badnaamiyaaN, rusvaaiyaaN

zindagii shaayed isii kaa naam hai
duuriyaaN, majbuuriyaaN, tanhaaiyaaN

kyaa zamaaneY meN yuuN hii kaT'tii hai raat
karvateN, betaabiyaaN, angRaaiyaaN

kyaa yahii hotii hai shaam-e-intizaar
aahaTeN, ghabraahaTeN, parchhaiyaaN

aik paikar meN simaT kar rEh gayiiN
KhuubiyaaN, zebaaiyaaN, raanaaiyaaN

zaKhm dil k phir harey karney lagiiN
badliyaaN, barkhaa ruteN, purvaaiyaaN

“Kaif” paida kar samandar kii tarah
vus’ateN, KhaamoshiyaaN, gehraaiyaaN

Us vafaa-aashnaa kii furqat meN


aik hii muzhdah subh laatii hai
sehan meN dhuup phail jaatii hai

kyaa sitam hai keh ab terii suurat
Ghaur karney pey yaad aatii hai

sochtaa huuN keh us kii yaad aaKhir
ab kisey raat bhar jagaatii hai

us vafaa-aashnaa kii furqat meN
Khvaahish-e-Ghair kyuuN sataatii hai

kaun is ghar kii dekh-bhaal karey
roz ek chiiz TuuT jaatii hai

Thursday, 19 September 2013

اَب کے سفر میں تشنہ لَبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا؟


اَب کے سفر میں تشنہ لَبی نے، کیا بتلائیں، کیا کیا دیکھا؟
صحراؤں کی پیاس بجھاتے دریاؤں کو پیاسا دیکھا

شاید وہ بھی سرد رُتوں کے چاند سی قسمت لایا ہو گا
شہر کی بھِیڑ میں اکثر جس کو ہم نے تنہا تنہا دیکھا

چارہ گروں کی قَید سے چھوُٹے، تعبیریں سب راکھ ہوئی ہیں
اب کے دل میں درد وہ اُترا، اب کے خواب ہی ایسا دیکھا

رات بہت بھٹکے ہم لے کر، آنکھوں کے خالی مشکیزے
رات فرات پہ پھر دشمن کے لشکریوں کا پہرا دیکھا

درد کا تاجر بانٹ رہا تھا گلیوں میں مجروح تبسّم
دِل کی چوٹ کوئی کیا جانے، زخم تو آنکھ میں گہرا دیکھا

جس کے لیے بدنام ہوئے ہم، آپ تو اُس سے مِل کر آئے
آپ نے اُس کو کیسا پایا، آپ نے اُس کو کیسا دیکھا؟

کیسا شخص تھا زرد رُتوں کی بھیڑ میں جب بھی سامنے آیا
اُس کو دھوپ سا کھُلتا پایا، اُس کو پھول سا کھِلتا دیکھا

اَبر کی چادر تان کے جھیل میں ساتوں رنگ رچانے اُترا
موجئہ آب کی تہہ میں جانے چاند نے کس کا چہرہ دیکھا

تیرے بعد ہمارے حال کی ہر رُت آپ گواہی دے گی
ہر موسم نے اپنی آنکھ میں ایک ہی درد کا سایا دیکھا

محسن بند کواڑ کے پیچھے ڈھونڈ رہی ہے، سہمی شمعیں
جیسے عُمر کے بعد ہوَا نے میرے گھر کا رستہ دیکھا

raat chiraaGhoN kii mahfil meN, shaamil ek zamaana thaa


raat chiraaGhoN kii mahfil meN, shaamil ek zamaana thaa
lekin saath meN jalney vaalii, raat thii yaa parwaanaa thaa

Khizr nahiiN rahzan hii hogaa, raah meN jis ney looT liyaa
lekin yaaro shak hotaa hai, kuchh jaanaa pahchaana thaa

shab bhar jis rudaad-e-alam par, ashk bahaatey guzrii thii
subah hu_ii to hamney jaanaa, apnaa hii afsaanaa thaa

kaun hamaarey dard ko samjha, kisney Gham meN saath diyaa
kehney ko to saath hamaarey, tum kyaa, ek zamaanaa thaa

log isey jo chaahey kah leN, apnaa to yeh haal rahaa
sirf unhiiN sey zaKhm miley haiN, jin sey kuchh yaaraana thaa

maslehatoN kii is bastii meN, lab khultey, yeh taab naa thii
vaz'a junooN kii baat na poochho, vo bhii ek bahaana thaa

talKhi-e-Gham pohaNchey they bhulaaney, sood-o-ziyaaN meN uljhey haiN
baadaa_faroshoN kii maNDii thii, naam magar mai_Khaanaa thaa

nabz kii Khaatir ham ney apnaa, zauq-e-talab badnaam kiyaa
aaj vahii kehtey haiN haNs kar, shaayar thaa, diivaanaa thaa

چشمِ تر ، قلبِ حزیں ، آبلے پاؤں میں لئے


اس نے مکتوب میں لکھا ہے کہ مجبور ہیں ہم
اور بانہوں میں کسی اور کی محصور ہیں ہم

اُس نے لکھا ہے کہ ملنے کی کوئی آس نہ رکھ
تیرے خوابوں سے خیالوں سے بہت دور ہیں ہم

ایک ساعت بھی شبِ وصل کی بھولی نہ ہمیں
آج بھی تیری ملن رات پہ مغرور ہیں ہم

چشمِ تر ، قلبِ حزیں ، آبلے پاؤں میں لئے
تیری اُلفت سے ، ترے پیار سے معمور ہیں ہم

اُن کی محفل میں ہمیں اذنِ تکلم نہ ملا
اُن کو اندیشہ رہا سرمد و منصور ہیں ہم

یوں ستاروں نے سنائی ہے کہانی اپنی
گویا افکار سے جذبات سے معذور ہیں ہم

اس نے لکھا ہے جہاں میں کریں شکوہ کس سے
دِل گرفتہ ہیں غم و درد سے بھی چُور ہیں ہم

تیرا بیگانوں سا ہم سے ہے رویہ شہزاد
باوجود اِس کے ترے عشق میں مسحور ہیں ہم

کسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشتِ ویراں پر


خبر کیا تھی نہ ملنے کے نئے اسباب کردے گا
وہ کر کے خواب کا وعدہ مجھے بے خواب کردے گا

کسی دن دیکھنا وہ آ کے میری کشتِ ویراں پر
اچٹتی سی نظر ڈالے گا اور شاداب کردے گا

وہ اپنا حق سمجھ کر بھول جائے گا ہر احساں
پھر اس رسم ِانا کو داخل ِآداب کردے گا

نہ کرنا زعم اس کا طرز ِاستدلال یہ ہے
کہ نقش ِسنگ کو تحریر موج ِآب کردے گا

اسیر اپنے خیالوں کا بنا کر یک دن محسن
خبر کیا تھی میرے لئے کامیاب کردے گا

کہو، کیا راہِ الفت میں دل و جاں وار سکتے ہو ؟


کہو، کیا جل رہا ہے پھر جہاں میں آشیاں اس کا ؟
نہیں ، جب دل سلگتا ہے تو اٹھتا ہے دھواں اس کا

بھلا کیوں پھول کی پہچان بنتی ہے مہک اسکی ؟
سنو ، سورج کی کرنوں سے ہی ملتا ہے نشاں اس کا

کہو، کیا راہِ الفت میں دل و جاں وار سکتے ہو ؟
سنو ، دل کی زمیں اس کی نظر کا آسماں اس کا

بھلا کب دنی پڑتی ہے وضاحت سامنے سب کے ؟
پتہ جب پوچھتی ہیں آکے ہم سے دوریاں اس کا

خطا دونوں کی تھی لیکن سزا کیوں ایک نے پائی؟
سنو تنہا تھا دل اپنا مگر سارا جہاں اس کا

سنو ، اس بیوفا کی یاد تو آتی نہیں ہو گی ؟
سنو ، دل رک سا جاتا ہے جو آتا دھیاں اس کا

سنو، وہ ہر جگہ جاکر تمہیں بدنام کرتا ہے !
کہا، یہ جاں سلامت ہے ، رہے جاری بیاں اسکا

بچھڑ کر کیا کبھی سوچا اسے ملنے کے بارے میں ؟
سنو، دھرتی کے ہم باسی ، فلک پر ہے مکاں اس کا