کرب تنہائی میں جلتی ہوئی اس ذات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی بادل کا
ایسا بادل
جو مرے جسم کے صحرا کو بھی ساحل کردے
ہاتھ ہاتھوں پہ رکھے
روح کو جل تھل کردے
اداس آنکھیں میری
ظلم کی دھند میں لپٹی ہوئی اس رات کے دروازے پر
راستہ دیکھتی رہتی ہیں کسی سورج کا
ایسا سورج
جو محبت کے ہر اک نقش کو روشن کردے
خوف کی لہر سے جمتے ہوئے لوگوں میں حرارت بھر دے
بھاگتے دوڑتے اس وقت کے ہنگامے میں
وہ جو اک لمحہ امر ہے
وہ ٹھہرتا ہی نہیں
بے یقینی کا یہ ماحول بکھرتا ہی نہیں
میرا سورج
میرے آنگن میں اترتا ہی نہیں
No comments:
Post a Comment