اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
ہمارے پاؤں میں جو راستہ تھا
راستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پہ جتنی طائروں کی ٹولیاں
ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اُڑتے اُڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پر سایہ کرتی تھیں
وہ سب مُرجھا گئی ہیں
تم اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں میں کوئی داستاں قصّہ کہانی
جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنائیں گے
بتائیں گے
کہ ہم محرابِ اَبرو میں ستارے ٹانکنے والے
درِ لب بوسئہ اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری زُلفوں میں ہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آئینے کے درمیاں
کب سے سرِ ساحل کھڑے موجوں کو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا
ہم آ کر خود اُسے ملتے
مگر مقتل بدلتے موسموں کے خون میں رنگین ہے
اور ہم
قطار اندر قطار ایسے بہت سے موسموں کے درمیاں
تنہا کھڑے ہیں
جانے کب اپنا بلاوا ہو
کہ ہم میں آج بھی
اِک عمر کی وارفتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے
وہ بازی جو بساطِ جاں پہ کھیلی تھی
ابھی ہم نے
نہ جیتی ہے نہ ہاری ہے
اسے کہنا کبھی ملنے چلا آئے
کہ اب کی بار شاید
اپنی باری ہے
No comments:
Post a Comment