Tuesday, 23 October 2012

آتش ہجر وہ رنگوں سے بجھا آیا ہے



آتش ہجر وہ رنگوں سے بجھا آیا ہے
کینوس پر تری تصویر بنا آیا ہے

موسمِ عشق ہی اب پھول کھلائے تو کھلے
دل تو ہر شاخ پہ اک تتلی بٹھا آیا ہے

اے وہ لڑکی جو کبھی گھر سے نکلتی ہی نہیں
دیکھ در پر ترے اک آبلہ پا آیا ہے

وقت کی میز سے وہ خواب اُٹھا لے کوئی
وہ جسے بھول کے عجلت میں چلا آیا ہے

چھوڑ آیا ہے سمندر کو دہائی دیتے
پیاس کو اپنی وہ ساحل پہ بٹھا آیا ہے

اپنی کٹیا میں کہیں اُس نے وہ دکھ بھوگا تھا
جس کو بھولا ہے تو جنگل بھی گنوا آیا ہے

اشک عیّار کی زنبیل میں کیا ہے یہ جمیل
گریہ ء سرخ ہے یا خون بہا آیا ہے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets