مدتوں کی خشک مٹی کو بھگونے آ گیا
کس کے آنسو دیکھ کر بادل بھی رونے آ گیا
اک چمکتی موج کیا دریا نے دامن میں بھری
پھر تو سیلِ آب ساحل ہی ڈبونے آ گیا
شہر مسمار کرکے بے گھروں کے واسطے
اک سخی اب لے کے خیمے اور بچھونے آ گیا
یہ جو راہِ عشق ھے جاتی ھے مقتل کی طرف
تو میرے ہمراہ کیوں برباد ہونے آ گیا
No comments:
Post a Comment