میں جب بھی اس کی محبتوں کی صداقتوں کی کتاب لکھوں
تو سب سے پہلے اسے محمد کہوں رسالت مآب لکھوں
کروں تلاوت صحیفہ رخ کی اور اسے الکتاب لکھوں
جو خواب میں اس کو دیکھ پاؤں تو خواب کو کیسے خواب لکھوں
مرے خدا ! اپنی طبع مشکل پسند کا کیا جواب لکھوں
وہ کام جس کے نہیں ہوں قابل اسی کو کارِ ثواب لکھوں
صبا نہاؤں گلاب پہنوں تو سوچنے کی کروں جسارت
وضو کروں پہلے آنسوؤں سے تو اسمِ عالیِ جناب لکھوں
ٹھہر بھی جا اشکِ شامِ ہجراں ! ذرا اجازت دے سوچنے کی
جو خط ابھی تک لکھا نہیں ھے کوئی تو اس کا جواب لکھوں
اسی کو چاہوں اسی کو سوچوں اسی کی کرتا رہوں تلاوت
جو اذن لکھنے کا پا سکوں تو اسی کو میں بے حساب لکھوں
سرمژہ جو لرز رھے ھیں درود اور نعت کے ستارے
انھیں شفاعت کے پھول لکھوں کہ مغفرت کے گلاب لکھوں
وہی تو ھے جو الوہیت کی صفات کا مظہر اتم ھے
لکھوں تو اس کو نقاب اندر نقاب اندر نقاب لکھوں
تمام سچائیوں کا حامل وہی ھے کامل وہی ھے اکمل
اسی کو لوح وقلم اسی کو کتاب اندر کتاب لکھوں
جو حرف اب بھی اتر رھے ھیں جو اب بھی الفاظ بولتے ھیں
اسی کا حسن بیان ،حسنَ کلام، حسن خطاب لکھوں
وہی ھے نیت وہی ارادہ وہی ھے منزل وہی ھے جادہ
وہ راہبر ہو اگر سفر میں تو ہر سفر کامیاب لکھوں
دل ونظر اشک اشک دھوؤں تو اس پہ بھیجوں درود مضطر !
سجاؤں پلکوں کو آنسوؤں سے تو نعت کو آب آب لکھوں
No comments:
Post a Comment