اس کی یاد سے خوشی کی چراغ جل اٹھتے ہیں
اک چراغ بجھتا ہے ،کئی چراغ جل اٹھتے ہیں
دسمبر کی یخ بستہ راتیں اور ہم تنہا
نیند بچھڑتی ہے ،درد جل اٹھتے ہیں
ہم سیاہ بختوں کا حال کیا پوچھنا
اندھیرا بڑھتا اور ہم جل اٹھتے ہیں
کس قدر تپش ہے اس کی یادوں میں
شمع پگلتی ہے اور ہم جل اٹھتے ہیں
وقت ایسا بھی آنا تھا زندگی میںضمیر
کسی کے ساتھ دیکھ کے اسے جل اٹھتے ہیں
آخری ساعتیں رات کے آخری پہر کی
کرن چھپی اجالے میں اور ہم جل اٹھتے ہیں
No comments:
Post a Comment