Wednesday, 14 November 2012

زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا


زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا

ہم فقط زیبِ حکایت تھے فسانہ تو تھا

ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں وہ لوگ


آتے جاتے ہوئے موسم تھے زمانہ تو تھا


اب کے کچھ دل ہی نہ ما
نا کہ پلٹ کر آتے


ورنہ ہم در بدروں کا ٹھکانہ تو تھا


یار و اغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فراز


اور سب دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تو تھا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets