دِل کے بند دریچوں کو وا نہیں کرتی
اُسے کہنا کہ اب وہ تتلیاں پکڑنے کو
کسی سر سبز جزیرے پر جایا نہیں کرتی
اُسے کہنا کہ اب وہ زندگی کے موضوع پہ
کوئی ترنم ریز نغمہ چھیڑا نہیں کرتی
اُسے کہنا کہ اب وہ موجوں کے تلاطم سے
عہدِ ماضی کی طرح گھبرایا نہیں کرتی
اُسے کہنا کہ اب وہ نرم خوابوں کی سر زمین پہ
گلاب کے سپنے سنجویا نہیں کرتی
اُسے کہنا اب وہ اپنے آنگن کے موتیا کو
کسی گجرے کے گہنے میں پرویا نہیں کرتی
اُسے کہنا کہ اب وہ سرد اور تاریک راتوں میں
جاگتی تو رھتی ھے ، رویا نہیں کرتی
No comments:
Post a Comment